مسلمانوں کے باہمی حقوق

عن ابن عمرؓ قال قال النبیؐ فی حجۃ الوادع، الا ان اللہ حرم علیکم دمائکم و اموالکم کحرمۃ یومکم ہذا فی شھر کم ہذا الاہل بلغت؟ قالو نعم؟ قال اللہم اشہد ثلاثا، ویلکم او ویحکم، انظر و الا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض۔ (بخاری: کتاب الحج)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے اپنے آخری حج میں (جس کے بعد آپؐ دنیا سے تشریف لے گئے) حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "سنو! اللہ نے تمہارا خون اور مال و آبرو محترم قرار دیے ہیں، جس طرح تمہارا یہ دن، یہ مہینہ اور یہ شہر محترم ہیں، سنو! کیا میں نے تم کو پہنچا دیا؟
حدیثِ مبارکہ کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے:
1۔ اسلام امن و سلامتی کا علمبر دار ہے، وہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔
2۔ قرآن مجید میں ناحق کسی مسلمان کو قتل کرنے کی سزا بیان کی گئی ہے۔ (فجزاؤہ جہنم خالدًا فیہا و غضب اللہ ولعنہ و اعد لہ عذابا ً عظیماً، النساء ۴: ۹۳) یعنی وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب او اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔
3۔ وہ لوگ اپنا انجام سوچ لیں جو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات یا گروہی تعصبات کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کا گلا کاٹ دیتے ہیں، اللہ کے عذاب کی گرفت بڑی مضبوط ہے، دیر ہو یا سویر کسی وقت بھی اس کی پکڑ میں آسکتے ہیں، اس سے انہیں ڈرنا چاہیے۔
(مطالعہ حدیث کورس، "معاشرتی معاملات” یونٹ 19 صفحہ نمبر30 تا31، دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی)