مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ خواجہ حیدر علی آتشؔ صاحب کی سیدھی سادی طبیعت اور بھولی بھالی باتوں کے ذکر میں میر انیس مرحوم نے فرمایا کہ ایک دن آپ کو نماز کا خیال آگیا۔ کسی شاگرد سے کہا کہ ’’بھئی، ہمیں نماز سکھاؤ۔‘‘ وہ اتفاقاً فرقۂ سنت جماعت سے تھا۔ اس نے ویسی ہی نماز سکھا دی اور کہ کہہ دیا کہ ’’استاد! عباداتِ الٰہی جتنی پوشیدہ ہوں، اتنی ہی اچھی ہوتی ہیں۔‘‘ جب نماز کا وقت ہوتا، یہ حجرے میں جاتے یا گھر کا دروازہ بند کرکے اسی طرح پڑھا کرتے۔
میر دوست علی خلیل ان کے شاگردِ خاص اور جلوت و خلوت کے حاضر باش تھے۔ ایک دن انہوں نے بھی دیکھ لیا، بہت حیران ہوئے۔ یہ نماز پڑھ چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اُستاد! آپ کا مذہب کیا ہے؟‘‘
فرمایا، ’’شیعہ۔ ہیں! یہ کیا پوچھتے ہو؟‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اور نماز سنیوں کی؟‘‘
فرمایا، ’’بھئی! میں کیا جانوں! یہ فلاں شخص سے میں نے کہا تھا، اس نے جو سکھا دی، سو پڑھتا ہوں۔ مجھے کیا خبر کہ ایک خدا کی دو دو نمازیں ہیں۔‘‘
(ڈاکٹر علی محمد خان کی کتاب ’’کِشتِ زعفران‘‘ مطبوعہ ’’الفیصل‘‘ پہلی اشاعت فروری 2009ء، صفحہ نمبر 24 سے انتخاب)