بادشاہ ضحاک اور عمران میں مماثلت

دماغ ماؤف ہے۔ عقل کام نہیں کرتی۔ سوچنے سمجھنے کی تمام حسیات مفلوج ہوچکے ہیں۔ پچھلے ماہ سوئی گیس کا بل 11 ہزار سے اوپر آیا۔ دل پر جبر کرکے بادل نخواستہ ادا کردیا کہ چلو ایک ماہ کی تو بات ہے، لیکن اس مرتبہ جب پورے ستائیس ہزار کا بل آیا، تو اس نے تو ہوش ہی اڑا دیے۔ مجبوراً قسطوں میں ادائیگی منظور کرائی، تو اہل کار نے بتا دیا کہ تین ہزار کا جرمانہ برقرار رہے گا۔ اس کے علاوہ پی ٹی سی ایل ٹیلی فون عرصہ سے خراب تھا۔ بار بار اسلام آباد سنٹر میں شکایت کی گئی، لیکن شنوائی نہیں ہوئی۔ خراب ٹیلی فون کے لیے کئی ماہ سے 2 ہزار ماہوار سے زائد بل ادا کرتا رہا۔ اس ماہ مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس معاملے کو ختم کیا جائے، تو بہتر ہوگا۔ کم از کم ماہانہ بل سے تو گلو خلاصی ہو جائے گی۔ مجبوراً 2 مہینے کے بل کے ساتھ درخواست دے کر فون کنکشن منقطع کرانا پڑا۔ اب بجلی اور گیس کا مسئلہ ہے۔ اگر موسمِ سرما میں بجلی لوڈ شیڈنگ کا یہ حال ہے، تو موسم گرما کی شدید گرمی میں کیا صورت حال ہوگی؟ اس کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں۔ مجبوراً گھر میں جنریٹر بھی رکھا ہے۔ یو پی ایس اور سولر پینل بھی لگائے ہیں۔ دو بڑی بڑی بیٹریوں کے ساتھ اور آٹھ سولر پینلز اور جدید یو پی ایس کے اخراجات مل کر ایک لاکھ سے متجاوز ہیں۔ یہ ہے واپڈا کی طرف سے فراہم کردہ بجلی کا معاملہ۔ بِل باقاعدہ آتا ہے اور بروقت ادائیگی کرتے ہیں، لیکن بجلی کی فراہمی واپڈا اور پیسکو کے اختیار میں ہے۔ وہ فراہم کریں، تو ان کی مرضی۔ اور اگر نہ کریں، تو بھی ان کی مرضی۔اب گیس کی بات ہے، تو بجلی اور گیس نا گزیر ضرورت ہیں۔ ٹیلی فون کی طرح بجلی اور گیس کنکشن تو نہیں کٹوا سکتے، لیکن میرے ہمسائے کا گیس بل مبلغ 80 ہزار روپے آیا ہے، تو بے چارے نے تو گیس استعمال کرنے سے توبہ کرلی اور لکڑیاں خرید کر لے آئے۔ کوئی ہر ماہ 30 ہزار ،40 ہزار اور 50 ہزار روپے کہاں سے لائے؟
قارئین، آپ یقین کریں کہ ہمارے محلے میں ہر آدمی کے پاس اتنی ہی رقومات کے بل آئے ہیں۔ اب جس شخص کی ماہانہ آمدنی 20، 25 ہزار روپے ہے۔ 7، 8 ہزار روپے مکان کا کرایہ ہے، 5، 6افرادِ خانہ کے خور و نوش کے ماہانہ اخراجات ہیں، غمی خوشی اور بیماری اس پر مستزاد۔ کیا ایسا فرد خود کشی کے بارے میں نہیں سوچے گا؟ ہمارے ساتھ تو کفن چور والا معاملہ ہوا۔ کفن چور جب فوت ہوا، تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا، لیکن جب اس کے بیٹے نے مردے کی کفن کے علاوہ اور بھی مٹی خراب کی، تو لوگ اس پرانے کفن چور کو دعائیں دینے لگے۔ عمران خان کی تحریک انصاف نے ہمیں نواز زرداری کی قدروقیمت یاد دلا دی۔ اور جیسے کہ لوگ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف خود بھی کھاتے تھے، لیکن کچھ لوگوں پر بھی خرچ کرتے تھے۔ زرداری بھی اس بات کا خیال کرکے کرپشن کرتے تھے کہ لوگوں کو اتنا زیادہ نہ ستاؤ کہ بغاوت پر آمادہ ہو جائیں اور اقتدار کے لالے پڑ جائیں، لیکن غالباً عمران خان کو ہر طرف سے تحفظ حاصل ہے۔ اس کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ امریکہ اور یورپ کے ایجنڈے پر عمل کرنے کی یقین دہانی سے اس نے عالمی طاغوت کا منھ بند کر دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو تو ایسے ہی ’’وفا شعار‘‘، ’’جی حضوری‘‘ اور ’’یس مین‘‘ کی پہلے ہی سے ضرورت تھی۔ وہ ضرورت عمران خان نے پوری کر دی۔ اب قوم ہے، تو 70، 71 سال میں حکمرانوں نے قوم سے احتجاج کا حوصلہ اور جذبہ ہی نکال دیا ہے۔ ایسی خوار و نزار قوم میں اس ظلمِ عظیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ اور جذبہ کہاں سے آئے گا، جو نانِ شبینہ کی محتاج ہو اور روزی روٹی کے علاوہ کسی اور بات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ہو؟ البتہ ایک بات تاریخ اور آثار سے ثابت ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے، تو آخر مٹ جاتا ہے۔ عوام کے لیے بھی جب زندہ اور باعزت زندگی گزارنے کی امید ختم ہو جاتی ہے، تو پھر وہ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور انقلاب برپا کرتے ہیں۔
قارئین، آپ کو ایک علامتی کہانی سناتا ہوں۔ آپ خود اندازہ لگالیں گے کہ انقلاب کے لیے کس طرح کے حالات درکار ہوتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ ایران میں ضحاک نامی ایک شخص تخت سلطنت پر بزور قابض ہوا۔ ضحاک کے سر میں پیدائشی طور پر دو سانپ تھے اور ان سانپوں کے خوراک اور غذا کے لیے وقت کے طبیبوں اور حکما نے انسانی دماغ یعنی مغز تجویز کیا تھا۔ بادشاہ کے وزیروں، مشیروں اور درباریوں نے بھی اس تجویز کی تائید و حمایت کی اور وقت کے مذہبی پیشواؤں نے بھی اسی کے حق میں فتوے جاری کیے کہ چوں کہ بادشاہ سلامت کی جان انتہائی قیمتی اور ملک و قوم کے لیے ناگزیر ہے ۔لہٰذا پوری قوم بادشاہ سلامت کی سلامتی کے لیے قربانی کے جذبے سے یہ تکلیف برداشت کرے۔ نوجوان کے انتخاب کے لیے قرعہ اندازی کا طریقہ مقرر ہوا، جس کا نام نکل آیا، اس کا دماغ بادشاہ سلامت کے سر میں جنم لینے والے سانپوں کی خوراک کے لیے پیش کیا گیا۔ ایک لوہار جس کے دس بیٹے تھے۔ ایک مرتبہ قرعہ اندازی میں اس کے ایک بیٹے کا نام نکل آیا، اور وہ قتل کیا گیا۔ لوہار اس کی بیوی اور گھر والے نہایت غمزدہ ہوئے۔ روئے دھوئے، آہ و زاری کی لیکن کچھ قرار آیا، تو دل میں سوچنے لگے کہ چلو ایک مصیبت تھی جو گزر گئی۔ اللہ کے فضل سے نو بیٹے تو زندہ ہیں، لیکن جب باری باری ایک ایک بیٹا سانپوں کی خوراک بننے لگا اور آخر میں دسویں اور آخری بیٹے کی باری آئی، تو لوہار کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ وہ اپنی پھونکنی ایک لکڑی میں پرو کر چوک میں نعرے لگاتا ہوا اور فریاد کرتا ہوا نکل آیا اور پھر جس جس کے نو بیٹے قتل ہوئے تھے، وہ سب نکل آئے اور انقلاب بر پا کرکے رکھ دیا۔ ضحاک قتل ہوا۔ اس کی جگہ فریدون کو بادشاہ بنایا گیا اور لوہار کی دھونکنی ’’درفشِ کا ویانی‘‘ بن کر ایران کا قومی جھنڈا قرار پائی۔
انتخابات کے دوران میں عمران خان ملکی ترقی، معیشت کی بحالی اور عوام کو ریلیف دینے کے جو وعدے کرتے تھے، وہ تمام جھوٹ اور سراب ثابت ہوئے۔ آٹھ ماہ کے عرصۂ اقتدار میں کوئی بھی کارنامہ سامنے نہیں آیا۔ لوڈشیڈنگ پہلے سے بڑھ گیا۔ آئی ایم ایف سے شرائط طے کیے بغیر اس کے تمام مطالبات مان لیے گئے۔ سوئی گیس اور بجلی کے نرخوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ، روپے کی قدر میں کمی سے ڈالر 142روپے تک پہنچ گیا، جس کے نتیجے میں مہنگائی اور گرانی کا طوفا ن آگیا۔ تمام کے تمام ادارے خسارے اور نقصان میں جا رہے ہیں۔ 8 ماہ کے دوران میں کسی بھی ادارے کی اصلاح نہیں کی جا سکی۔ سعودی، یو اے ای اور چائینہ سے قرضے لیے گئے اور اب آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑے ان کی شرائط پر قرض لیا جائے گا۔ براہِ راست ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، لیکن اتنی ہمت نہیں کہ جاگیرداروں، وڈیروں اور بڑے زمینداروں پر زرعی ٹیکس کے لیے قانون سازی کی جائے۔ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے اربوں ڈالروں کا بڑا چرچا تھا، اس کا اب کوئی نام بھی نہیں لے رہا۔ لندن اور دبئی میں ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے اربوں ڈالر لانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ واپڈا کو ٹھیک کیا گیا نہ لائن لاسز کا معاملہ ختم کیا گیا اور نہ ڈیفالٹروں سے وصولی ہی کی گئی۔ بس خون نچوڑنے کے لیے عوام ہی رہ گئے ہیں۔ سادگی اور کفایت شعاری کا پول اس وقت کھل گیا جب پنجاب اسمبلی کے تمام ممبران پارٹی اختلافات سے بالاتر ہو کر اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے لیے متحد و متفق ہوگئے، اور چند گھنٹے کے اند ر اندر بل پاس کر دیا گیا۔
غربت ختم کرنے کے لیے پروگرام بنائے جا رہے ہیں لیکن عملاً غریب کو ختم کرنے کا پروگرام جاری ہے۔ ’’یوٹرن‘‘ لینے کا بیان دے کر اپنے تمام وعدوں، نعروں اور دعوؤں سے انحراف کے لیے جواز نکال لیا گیا۔ مختصر کابینہ میں اتحادی جماعتوں کو راضی رکھنے کے لیے ان کے وزیر مشیر شامل کرکے اضافہ کیا جا رہا ہے۔ پوری صورت حال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ تحریکِ انصاف کی ٹیم اور قیادت نااہل اور غیر تجربہ کار ہے۔ ان کو مسائل کا ادراک ہے اور نہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دعوے اور وعدے تو اب بھی جاری ہیں، لیکن عمران خان نے اب تک کی بری حکمرانی اور نااہلیت پر کوئی خفت اور شرمندگی محسوس نہیں کی۔ پورے ملک پر نیب کی کارکردگی اور سپریم کورٹ میں زیرِ التوا کیسوں کا دھواں چھایا ہوا ہے۔ قومی اسمبلی عضوئے معطل ہے۔ کوئی قانون سازی ہو رہی ہے اور نہ کوئی مسئلہ ہی حل ہو رہا ہے۔ ڈیڈ لاک کا ایک ماحول ہے۔ بس لے دے کر ہر ہفتے کابینہ کے اجلاس ہو رہے ہیں، جس کے بعد فواد چوہدری لایعنی اور فضول نشست و برخاست کی رپورٹ قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ لبریشن فرنٹ کی باغیانہ سرگرمیاں جاری ہیں۔ فاٹا میں امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے۔ پختون قومی مومنٹ کے مطالبات گریٹر پختونستان تک دراز ہوتے جا ر ہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ا ن کے ساتھ مذاکرات اور ان کو قومی دھارے میں لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، لیکن دینی مذہبی عناصر کے ساتھ نہ مذاکرات کی گنجائش ہے اور نہ ان کے ساتھ بیٹھنے کی۔ عالمی دباؤ پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت دینی اداروں ، مساجد اور مدارس کو سرکاری تحویل میں لیا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے تو امریکہ نے اپنا رویہ تبدیل کر دیا ہے اور وہ عمران خان کے ترقی پسند اقدامات کو اچھی حکمرانی اور جمہوریت سے جوڑ رہے ہیں اور اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ مغرب زدہ لبرل عورتوں کا اسلام آباد کی سڑکوں پر دین، شرافت اور غیرت کے خلاف مظاہرہ اس ترقی پسند ایجنڈے کا اک ادنیٰ سا نمونہ ہے۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔