1۔ رات کا وقت تھا۔ مجاز کسی میخانے سے نکل کر یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ اسی اثنا میں اْدھر سے ایک تانگہ گزرا۔ مجاز نے اسے آواز دی، تانگہ رُک گیا۔ مجاز اس کے قریب آئے اور لہرا کر بولے: "جناب، صدر جاؤگے؟ تانگے والے نے جواب دیا: "ہاں، جاؤں گا۔” "اچھا تو جاؤ……..!” یہ کہہ کر مجاز لڑھکتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
2۔ مجاز اور فراق کے درمیان کافی سنجیدگی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک دم فراق کا لہجہ بدلا اور انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا: "مجاز! تم نے کباب بیچنے کیوں بند کر دیے؟” "آپ کے ہاں سے گوشت آنا جو بند ہو گیا۔” مجاز نے اُسی سنجیدگی سے فوراً جواب دیا۔
3۔ مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب جو اُن کو جانتے نہیں تھے، اُن کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ کافی کا آرڈر دے کر انہوں نے اپنی کن سُری آواز میں گنگنانا شروع کیا: "احمقوں کی کمی نہیں غالبؔ، ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں۔” مجاز نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: "ڈھونڈنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے حضرت! خود بخود تشریف لے آتے ہیں۔”
4۔ کسی مشاعرے میں مجاز اپنی غزل پڑھ رہے تھے۔ محفل پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی کے ساتھ کلام سُن رہے تھے کہ اتنے میں کسی خاتون کی گود میں ان کا شیرخوار بچہ زور زور سے رونے لگا۔ مجاز نے اپنی غزل کا شعر ادھورا چھوڑتے ہوئے حیران ہو کر پوچھا: "بھئی! یہ نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟”
5۔ کسی صاحب نے ایک بار مجاز سے پوچھا: "کیوں صاحب! آپ کے والدین آپ کی رِندانہ بے اعتدالیوں پر کچھ اعتراض نہیں کرتے؟” مجاز نے کہا: "جی نہیں۔” پوچھنے والے نے کہا: "کیوں؟” مجاز نے کہا: "لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے، مگر میرے والدین سعادت مند ہیں۔”
6۔ عبدالحمید عدمؔ کو کسی صاحب نے ایک بار جوشؔ سے ملایا اور کہا: "یہ عدم ہیں۔” عدم کافی جسامت والے آدمی تھے۔ جوشؔ نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے: "عدمؔ یہ ہے تو وجود کیا ہوگا؟”
7۔ جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اُردو میں خط لکھا، لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں دیا۔ جواب میں جوشؔ نے انہیں لکھا: "جنابِ والا، مَیں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا، لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔”
8۔ ایک مولانا کے جوشؔ صاحب کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے، تو جوشؔ صاحب نے وجہ پوچھی۔ کہنے لگے: "کیا بتاؤں جوشؔ صاحب، پہلے ایک گردے میں پتھری تھی، اس کا آپریشن ہوا۔ اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔ میں سمجھ گیا۔” (جوشؔ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا) "اللہ تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔”
9۔ کسی مشاعرے میں ایک "نو مشق شاعر” اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔ اکثر شعرا آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوشؔ صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر داد و تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔ گوپی ناتھ امنؔ نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: "قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟” جوشؔ صاحب نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا: "منافقت۔” اور پھر داد دینے میں مصروف ہوگئے۔
10۔ پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے 11 بچوں کے نام کا آخری حصہ "سنگھا” تھا۔ جب ان کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا، تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں؟ اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا: "آپ اس کا نام بارہ سنگھا رکھ دیجیے۔”
11۔ ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا: "آپ جس شخص کا ناول خرید رہے ہیں، وہ یہی ذات شریف ہیں۔ لیکن یہ چہرے سے جتنے بے وقوف معلوم ہوتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔” شوکت تھانوی نے فوراً کہا: "جناب، مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑا فرق ہے۔ یہ جتنے بے وقوف ہیں،چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔”
12۔ کرنل مجید نے ایک دفعہ پطرس بخاری سے کہا: "اگر آپ اپنے مضامین کا مجموعہ چھپوائیں، تو اس کا نام صحیح بخاری رکھیں۔” پطرس نے جواب دیا: "اور اگر آپ اپنی نظموں کا مجموعہ چھپوائیں، تو اس کا نام کلامِ مجید رکھیں۔” (فیس بُک پیج "پاک ٹی ہاؤس” سے ماخوذ)