بیک وقت کئی محاذوں پر مصروف بھارت

پلوامہ میں عادل احمد نے فدائی حملہ کرکے بھارتی سنٹر ریزرو فورس کے چالیس اہلکاروں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کیا۔ حملے کے بعد بھارت میں کہرام مچا گیا۔ انڈیا ان تک چیخ رہا ہے، تڑپ رہا ہے،بلک بلک کر روتے ہوئے پاکستان کو دھمکیاں بھی دی رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پلوامہ حملے کو جواز بنا کر نہ صرف پاکستان سے تمام مذاکرات اور بات چیت کا سلسلہ ختم کر دیا ہے، بلکہ پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دیتے ہوئے اپنی افواج کو تیار رہنے کا حکم بھی دیا ہے۔ ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ "مجھے معلوم ہے کہ آپ کے دل میں جتنا غصہ ہے، اس سے کہیں زیادہ میرے دل میں بھی ہے۔” انھوں نے جلسے سے خطاب میں فوج کو کارروائی کی کھلی چھوٹ بھی دی ہوئی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے بھڑک مارتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو تجارتی اور سفارتی سطح پر سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔ پلوامہ حملے کے بارے میں ہندوستان کے عوام بھی مودی کے ساتھ نہیں۔ ہندستان کے سماجی کارکن ومن مشیرام کا کہنا ہے: "پلوامہ حملہ پاکستان نے نہیں بلکہ مودی سرکار نے خود کروایا ہے۔ اگر بھارتی سرکار کو چھے دن پہلے سے خبر تھی کہ ان لوگوں کو مارا جائے گا، تو روکا کیوں نہیں؟ مود ی نے اپنے ظالمانہ فیصلوں کے خلاف توجہ ہٹانے کے لیے یہ ڈرامہ رچایاہے۔”
ہندو انتہا پسند تنظیم کے سربراہ راج ٹھاکرے نے پلوامہ حملے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پلوامہ حملے کی خبر ہونے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی فلم شوٹنگ میں مصروف رہے۔
مودی کی گیدڑ بھبکیوں کے بارے میں دفاعی تجزیہ نگار "راگھو رامن” بیس فروری کو ہندوستان ٹائمز میں زیرِ عنوان کالم "کشمیر کے بارے میں پاکستان کی امیدیں وادی کو انڈیا سے الگ کرنا ہے” میں لکھتے ہیں کہ روایتی جنگ کے لیے فوجیوں کی تعداد موجود نہیں۔ سرجیکل سٹرائیک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اس لیے کہ ہم اس قسم کے حملے میں دشمن کو سرپرائز نہیں دے سکتے اور اگر اس مہم جوئی میں ہماری سپیشل فورسز کا کوئی فوجی اہلکار گرفتار ہوا، تو ہمارے لیے مسئلہ ہوگا۔ پائلٹ کی گرفتاری نے اس کی بات درست ثابت کیا۔
ہندو انتہا پسندوں نے بھارت میں مسلمانوں اور خاص کر کشمیری نوجوانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ مسلمانوں کی دکانیں بند کرا دی گئی ہیں، جب کہ کشمیری طلبہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے، جس پر بھارتی سپریم کورٹ نے تمام صوبائی حکومتوں کوہدایت کی ہے کہ پلوامہ حملے کی آڑ میں بھارت میں کشمیریوں اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی جو لہر اُٹھی ہے۔ اس سے کشمیریوں اور مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں اور ان کی توہین و تضحیک کو روکیں۔
قارئین، کشمیر کا مسئلہ کوئی کل پرسوں کا مسئلہ تو نہیں بلکہ بھارت کے پنڈت جواہر لعل نہرو اقوامِ متحدہ کے سلامتی کونسل میں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کا اعتراف کر چکے ہیں، لیکن بھارت 70 سال سے حیلوں بہانوں سے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع نہیں دے رہا۔ کشمیر میں انسانی حقوق کے خلاف ورزی پر دنیا میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ میں 19 فروری کو ہونے والے اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا سوال شدت سے اُٹھایا گیا ہے۔
بھارت میں صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں ہے، بھارت داخلی طور پر بھی انتشار سے دوچار ہے۔ جہاں ذات، برادری، نسلی، لسانی اور مذہبی بنیاد پر انتہا درجے کی تفریق پائی جاتی ہے۔ بھارت کو ہندو دہشت گردی، مذہبی علاحدگی پسندی، وفاق گریز قوتوں کی مزاحمت اور گروہی اختلاف کا بھی سامنا ہے۔ ہندو، سکھ، مسلمان، عیسائی اور ذات پات کی بنیاد پر اختلاف رکھنے والے گروہ چاہتے ہیں کہ بھارت سے الگ ہوجائیں۔ ہندوستان میں داخلی طور پر آسام، میزورم، منی پور، ناگا لینڈ، پنجاب اور تری پور کی وفاق گریز تحریکیں چل رہی ہیں، جب کہ کشمیری اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق استصواب رائے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی 19 ریاستوں میں 16 چاہتی ہیں کہ انھیں آزادی اور خودمختاری دی جائے، لیکن ہندوستان انھیں یہ حق دینے کو کسی طور تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی اور خود مختاری کی جدوجہد کرنے والی تحریکیں تشدد کی طرف گامزن ہوتی جا رہی ہیں۔ اس لیے بھارت میں پلوامہ جیسے واقعات رونما ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ تجارت بند کرنے، سبق سکھانے اور پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کی دھمکی بھی دی ہے، لیکن پاکستان نے اشتعال میں آنے کی بجائے صبر وتحمل اور بین الاقوامی سفارتی آداب کا خیال رکھتے ہوئے نہ صرف اب تک بھارت اور مودی سرکار کے خلاف کوئی تند و تیز اور غیر شائستہ لہجہ اختیار نہیں کیا، بلکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ البتہ اگر بھارت نے حملہ کر دیا، تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے پلوامہ حملے کی آزادانہ تحقیقات کرنے کی پیشکش کر دی۔
مگر بھارت کو بھی اس صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے کہ ایسی کیا بات ہے کہ کشمیری نوجوانوں میں موت کا خوف ختم ہوگیا ہے؟ اس حوالہ سے آرمی چیف قمر باجوہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان امن سے محبت کرنے والا ملک ہے۔ ہم کسی بھی جارحیت کا شدت سے جواب دیں گے۔ ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے جارحیت مسلط کی، تو بھرپور طاقت سے جواب دیا جائے گا۔ اس بار فوج کا جواب مختلف اور حیران کن ہوگا۔ اگر بھارت امن و ترقی چاہتا ہے، تو کلبھوش یادیو جیسوں کو پاکستان نہ بھیجے۔ اب تو ’’ایل او سی‘‘ پر چڑیا پر تک نہیں مار سکتی۔ مودی سرکارکی پاکستان کو دھمکیوں نے دنیا کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ کیوں کہ دنیا افغان جنگ سے یہ جان چکی ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پاکستان کشیدگی پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک بھارت صورتِ حال خطرناک ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کسی سخت ردعمل پر غور کر رہا ہے۔ ہمیں اس صورت حال کو کنٹرول کرنا ہوگا، تاہم دونوں ممالک بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں۔ اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران میں انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ چلتے، تو جنوبی ایشیا کے دونوں ممالک کے لیے اچھا ہوتا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی پاکستان اور بھارت کی کشیدگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
افغان طالبان نے بھی پاک بھارت کشیدگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک بھارت جنگی ماحول امن کے لیے تباہ کن ہوگا۔ چین نے بھی مسائل کو مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا ہے، لیکن مودی سرکار جنگی جنون میں مبتلا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ استصوابِ رائے کے لیے جدوجہد کرنے والے کشمیری عوام کو پاکستانی حکومت، عوام اور فوج کی اخلاقی و سیاسی حمایت حاصل تھی، اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی، لیکن عالمی طاقتوں کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ اقوامِ متحدہ سمیت طاقتور ممالک بھارتی ریاستی دہشت گردی کو روکنا تو دور کی بات، وہ مذمت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری نوجوان فارسی مقولہ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق بھارت کے خلاف اسلحہ اُٹھانے پر مجبور ہیں۔

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔