ماہیا

’’ماہیا‘‘ سرزمینِ پنجاب کی معروف پنجابی صنف ہے اور یہ سیکڑوں سال سے مروج ہے۔ لطف یہ ہے کہ یہ صنف سینہ در سینہ چلتی ہے اور آج بھی پنجاب کے چھوٹے بڑے سب دیہاتوں میں مرغوبِ خاص و عام ہے۔ پنجاب کا کوئی گھبرو جوان ہو یا الھڑ مٹیار، ہر کسی کو دو چار ماہیے ضرور ازبر ہیں، جنہیں وہ ہر دم گنگناتے یا ایک دوسرے کو سناتے رہتے ہیں۔
پنجابی کی یہ ہر دل عزیز صنف اردو میں بھی مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ اس صنف کے شہرت عام پانے کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ یہ صنف پنجاب کے کلچر سے ہم آہنگ ہے اور اس میں پنجاب کے دیہات کی خوب صورت زندگی کے رنگ نظر آتے ہیں۔ دوسری وجہ، یہ صنف فقط تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن ان تین مصرعوں میں ایک جہانِ معنی آباد ہوتا ہے۔ اگر چہ ہائیکو میں بھی صرف تین مصرعے ہوتے ہیں اور کچھ اُردو شاعروں نے ہائیکو کو اُردو میں بھی رواج دینے کی کوشش کی ہے، مگر ہائیکو جاپانی صنفِ نظم ہے اور اپنی بناوٹ کے اعتبار سے دلوں پر وہ تاثر نہیں چھوڑتی، جو ’’ماہیا‘‘ چھوڑتا ہے۔
ماہیے کا پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے۔ تینوں مصرعوں کے ارکان کی تعداد یکساں ہوتی ہے۔ ماہیا ہمیشہ ایک ہی بحر میں کہا جاتا ہے۔
اردو میں پہلے پہل اختر شیرانی اور چراغ حسن حسرتؔ نے ماہیے کہے۔ پھر کچھ دیگر اردو شاعروں نے بھی اس طرف توجہ کی جن میں سے علی محمد فرشی، احمد حسین مجاہد، ضمیر اظہر، امین خیال، حیدر قریشی، فرحت نواز، ذوالفقار احسن، سجاد مرزا، سعید شباب، پروین کمار اشک، افتخار شفیع اور نثار ترابی کے ماہیوں کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ نمونہ کے طور پر چند ماہیے ملاحظہ ہوں:
ساون میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے
(چراغ حسن حسرتؔ)
الجھے ہوئے دھاگے ہیں
جس یاد میں سوئے تھے
اس یاد میں جاگے ہیں
(نثار ترابی)
(’’اصنافِ نظم و نثر‘‘ از ڈاکٹر محمد خاں و ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ناشر الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، صفحہ 54-153 سے انتخاب)