گذشتہ دنوں جب ایس پی ایس کالج میں "جشن آباسین یوسف زے” کے نام سے تقریب جاری تھی، تو اس میں اپنے خطاب میں محترم ایم پی اے فضل حکیم نے کہا کہ اگر زمین مل جائے، تو کلچر کمپلیکس کے لیے فنڈ منظور کرانا میرے لیے کوئی مشکل نہیں۔ اس ضمن میں فضل حکیم صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ اے این پی کی سابقہ صوبائی حکومت نے سوات کلچر کمپلیکس کے لیے دو کروڑ پچاس لاکھ منظور کیے تھے۔ اُس وقت کے ڈویژن کمشنر ڈاکٹر فخرِ عالم نے ڈپٹی کمشنر سوات سے مجوزہ کلچر کمپلیکس بنانے کی خاطر سرکاری زمین مہیا کرنے کے لیے لکھا تھا، لیکن زمین مہیا نہیں کی گئی اور بات سرخ فیتے کی نذر ہوگئی۔ میں نے بار بار کمشنر صاحب سے اس سلسلہ میں رابطہ کرکے انہیں یاددہانی کرائی۔ وہ کامران رحمان صاحب کو لکھتے رہے۔ اس سلسلہ میں، مَیں بھی کامران رحمان صاحب (سابقہ ڈپٹی کمشنر) سے ملا اور اُنہیں عقبہ سیدو شریف اور مذبح خانہ عقب سوات کرکٹ سٹیڈم میں سرکاری زمین کا حوالہ بھی دیا، لیکن شاید وہ اس معاملہ میں مخلص نہیں تھے۔ بعد میں ڈپٹی کمشنر کا تبادلہ ایبٹ آباد ہوگیا، اور اُن کی جگہ دوسرے ڈپٹی کمشنر نے سوات کا چارج سنبھال لیا۔ اس طرح ملاکنڈ ڈویژن میں ایک نئے کمشنر محمد افسر خان صاحب نے چارج سنبھال لیا۔ میں نے پھر کمشنر صاحب سے اس حوالہ سے بات کی۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ میں اس کے لیے بھر پور کوشش کروں گا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے دریائے سوات کے کنارے پولیس لائن حاصل کرنے کی عملاً کوشش کی۔ کیوں کہ تحصیل کبل میں نئی پولیس لائن تکمیل کے آخری مراحل میں تھی۔ انہوں نے پولیس کے اعلیٰ افسروں اور صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدہ داروں کو قائل بھی کیا، لیکن بعد میں محکمۂ پولیس نے نئی پولیس لائن کے ساتھ پرانی والی کو بھی زیر استعمال لانے کا فیصلہ کیا۔یوں صوبائی حکومت کا دو کروڑ پچاس لاکھ روپیہ (مجوزہ کلچر کمپلیکس کی خاطر) ضائع ہوگیا۔
پشاور میں نشتر ہال جیسا خوب صورت ہال کلچر کے لیے مخصوص ہے۔ ایبٹ آباد، مردان اور دوسرے ڈویژن میں بھی شایانِ شان کلچر کمپلیکس، کلچر کو پروموٹ کر نے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن ملاکنڈ ڈویژن کے صدر مقام سیدو شریف میں ایسا کوئی ہال نہیں، جہاں ادبی، ثقافتی اور معاشرتی پروگراموں کو جاری و ساری رکھا جائے۔ ایک ودودیہ ہال سیدوشریف ہے لیکن وہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہاں زیب کالج کی ملکیت ہے، جہاں بڑوں کا راج چلتا ہے، جس میں سیاسی پارٹیاں، صوبائی حکومت، سوات انتظامیہ اور پاک آرمی سب اپنے اپنے پروگرام کیا کرتے ہیں، مگر سوات کے ادیبوں، دانش وروں، مصوروں اور فنونِ لطیفہ سے منسلک تخلیق کاروں کے لیے کوئی ہال نہیں۔ سوات کے عوام کے لیے کوئی جگہ مل بیٹھنے کے لیے دست یاب نہیں اور نتیجتاً سوات میں تعمیری سوچ کا فقدان ہے۔ گمراہ اور شیطان صفت لوگوں کے لیے سوات ایک موزوں علاقہ ہے۔ جہاں پر وہ سوات کے معصوم لوگوں کو اپنے دام میں باآسانی پھنسالیتے ہیں اور سوات میں امنِ عامہ کو نقصان پہنچا کر بعد میں رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ سوات کی تباہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں اور جو لوگ سوات کے عوام میں شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے عملاً کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے مل بیٹھنے کے لیے کوئی کلچر کمپلیکس، کوئی ہال یا کوئی مخصوص جگہ نہیں۔ گذشتہ صوبائی حکومت بھی کلچر کمپلیکس سوات میں بنانے کے لیے مخلص تھی اور موجودہ صوبائی حکومت بھی اس بارے میں کافی سنجیدہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سوات سے منتخب ایم پی اے اور ایم این اے حضرات مل کر سوات کلچر کمپلیکس قائم کرنے کے لیے صوبائی حکومت پر زور دیں، کہ وہ پانچ کنال سرکاری زمین فی الفور مہیا کرے۔
تاکہ سوات کے دانش وروں کو مل بیٹھنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کی خاطر موقع ہاتھ آئے اور ادبی، تعلیمی، ثقافتی، معاشرتی ایکٹویٹی کا عمل جاری و ساری ہو۔
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔