مسئلے بندوق سے حل نہیں ہوا کرتے

قارئین، بھارت آمد پر ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیر خارجہ سے پاکستان مخالف بیان دلوانے کی کوشش کی گئی، لیکن حسب معمول یہاں بھی بھارتی سازش ناکام ہوئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کے سعودی ولی عہد کے دورۂ بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔ بھارتی وزیرِاعظم اور سعودی ولی عہد کا مشترکہ اعلامیہ دیکھ کر بھارت کا غرور خاک میں مل گیا، جس میں سعودی ولی عہد نے پاکستان کو پلوامہ حملے میں نشانہ بنانے کی تمام کوششیں ناکام بنا دیں۔ بھارت پر الزام تھوپنے والا بھارتی وزیرِاعظم سعودی ولی عہد کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان کا نام لینے کی جرأت ہی نہ کر سکا۔ "مشترکہ اعلامیہ میں فریقین نے اس امر سے اتفاق رائے کیا کہ دہشت گردی کے سدباب کے لیے قومی سلامتی کے مشیران کی سطح پر جامع امن مذاکرات ہوں۔ پاک بھارت مذاکرات کرانے کے لیے مشترکہ اعلامیہ کا حصہ بنا دیا۔”
اس کے بعد پاکستان مخالف بھارتی میڈیا کا رونا دھونا شروع ہوا۔ اس نے واویلا کرنا شروع کر دیا کہ سعودی شہزادے نے پاکستانی وزیرِاعظم کو تو اربوں ڈالر دیے لیکن ہمارے حصے میں صرف باتیں آئیں۔ واضح رہے کہ گذشتہ روز بھی سعودی ولی عہد نے بھارت پہنچنے پر حقیقی معنوں میں پاکستانی سفیر ہونے کا عملی مظاہرہ کر دکھایا۔ نئی دہلی ائیرپورٹ پہنچنے پر مودی نے استقبال کیا۔ سعودی عرب نے بھارت کے دباؤ کے باوجود پاکستان کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔ بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے سعودی وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ "پلوامہ حملے میں ابھی کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے، تو کیسے پاکستان کی مذمت کریں؟” انہوں نے کہا کہ "ابھی تک پلوامہ حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے۔”
بھارت نے پلوامہ حملے کا الزام پاکستان پر دھرنے کی بے انتہا کوشش کی، تاہم بھارت کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور پلوامہ واقعے پر سلامتی کونسل کے 7 روز بعد جاری ہونے والے بیان میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف بھارتی ٹی وی چینل کی خاتون صحافی نے سابق وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر فاروق عبداللہ سے پاکستان مخالف بیان دلوانے کی کوشش کی، تو وہ سنتے ہی انٹرویو چھوڑ کر چلے گئے۔ فاروق عبداللہ نے کہا: "مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پر نہ ڈالیں، یہ مقامی نوجوان ہیں، جو بھارت سے لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ ختم نہیں ہوگی۔”
سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر نے مزید کہا کہ "کشمیر میں بندوق سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، یہ حالات جنگ سے نہیں مذاکرات سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔”
عمر فاروق نے بھی بھارت کی الزام تراشی کو رد کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے مذاکرات کی دعوت کا خیر مقدم کیا۔
امریکی صدر نے بھی بھارت کی توقعات کے برعکس پاکستان پر الزام نہ لگا کر بھارت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج پر حملے کی مذمت کیے بغیر کہا: "بہتر ہوگا کہ پاکستان اور بھارت مل کر چلیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جب میڈیا بریفنگ کے دوران میں پلوامہ میں حملے کے 40 سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے حوالے سے سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ "مَیں نے اس بارے میں دیکھا ہے، ہمیں اس پر کافی رپورٹس بھی ملی ہیں، ہم مناسب وقت پر اس پر بیان دیں گے، اگر پاکستان اور بھارت مل کر چلیں، تو یہ بہتر ہوگا۔”
پاکستان نے بہترین خارجہ پالیسی سے کام لیا۔ پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستانی سفارت کار اسلام آباد میں اب تک کم از کم 70 سے 80 تک غیر ملکی سفارت کاروں کو بریفنگ دی۔ پاکستانی عہدے داروں نے غیر ملکی سفارت کاروں کو بتایا کہ "بھارت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور کشمیر کے چہرہ کو دنیا کے سامنے مسخ کر کے پیش کریں۔” غیر ملکی سفیروں کو بریفنگ دینے والے پاکستانی عہدے داروں نے حملے کی ٹائمنگ پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "حملے کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا جس کا بھارت سے زیادہ پاکستان کو نقصان ہو۔ یہ حملہ جمعہ کے روز ہوا جب کہ اس سے اگلے دن سعودی عرب کے ولی عہد سلمان بن محمد پاکستان کی معاشی مدد کے لیے اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری کے ساتھ دورے پر آنے والے تھے۔ یہ حملہ پیرس میں "انٹرنیشنل فنانشل ٹاسک فورس” کے اجلاس سے پہلے ہوا، جو پہلے ہی دہشت گردوں کی فنڈنگ کے قوانین سے متعلق پاکستان کی جانچ پرکھ کر رہا ہے۔”
اسی اثنا میں بھارت کے تمام تر پروپیگنڈوں اور بھارتی میڈیا کی مضحکہ خیز رپورٹنگ اور جنگی جنون کا سلسلہ جاری تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو تنبیہ دی جس سے بھارتی میڈیا اور ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ کابینہ نے افواجِ پاکستان کو ملکی حفاظت کے لیے بھارتی جارحیت اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں بھرپور جواب دینے کا اختیار دے دیا۔ عمران خان کے خطاب کے بعد بھارت میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر پر لاکھوں سوشل میڈیا پوسٹس کی گئیں۔ یوں عمران خان بھارتی سوشل میڈیا کا "ٹاپ ٹرینڈ” بن گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو پلوامہ واقعہ کی تحقیقات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت کے پاس کوئی ثبوت یا انٹیلی جنس معلومات ہیں، تو تبادلہ کیا جائے، ایکشن لیں گے۔ ان کا کہنا تھا: "کیا وجہ ہے کہ کشمیر کے نوجوان ا س انتہا کو پہنچ گئے کہ انہیں موت کا خوف بھی نہیں؟ بھارت کو سوچنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں مظالم سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کشمیر کے حوالہ سے بھارت میں مذاکرات پر بات ہونی چاہیے۔ بھارت ڈائیلاگ میں دہشت گردی کا موضوع شامل کرنے کی بات کرتا ہے، ہم اس پر بھی بات کرنے کو تیار ہیں۔”
وزیرِاعظم عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "افغان مسئلے کی طرح مسئلۂ کشمیر مذاکرات اور بات چیت سے حل ہوگا۔ دہشت گردی خطے کا بڑا ایشو ہے۔ ہم اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بھارت کو خبردار کیا کہ اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرے گا، تو پاکستان سوچے گا نہیں بلکہ بھرپور جواب دے گا۔”
آئی ایس پی آر نے بھی میڈیا کانفرنس میں بھارت کو ایڈونچر سے باز رہنے کی تنبیہ کی کہ "افواجِ پاکستان کسی بھی قسم کی جارحیت کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔” پاکستانی عوام اور عالمی برداری جانتی ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے پاکستانی حدود میں ایک قدم بھی بڑھایا، تو اس کا بھرپور دیا جائے گا۔ افواجِ پاکستان نے پاکستانی سرحدوں پر چند گھنٹوں کے اندر اندر تمام حفاظتی انتظامات کر لیے ہیں۔ آج کا پاکستان 65ء یا 71ء کا پاکستان نہیں، بلکہ اسلامی ممالک کی واحد ایٹمی مملکت ہے۔ پاکستان کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی ہے۔ بھارت کی حماقت اس کے لیے تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔
اب یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت عالمی برداری میں جھوٹے الزامات کی وجہ سے شدید خفت و سبکی کا شکار ہوچکا ہے۔ اسے پوری دنیا میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ ہندو شدت پسند حکومت، پاکستان کے پڑوسی ملک کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی سازش کرسکتا ہے۔ بھارت پہلے ہی خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں دہشت گردوں کو فنڈنگ و سہولت دے رہا ہے۔ پاکستان کے سیکورٹی ادارے یقینی طور پر چوکنا ہیں، اور بھارت کے مکروہ اقدام اور پڑوسی ممالک کی جانب سے کسی بھی قسم کی ناخوشگوار واقعے کرانے کی کوشش پر جواب دینے کے لیے چاق و چوبند اور کرارا جواب دینے کے لیے پُرجوش ہیں۔ بھارت اس سے پہلے بھی اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے جھوٹے "سرجیکل اسٹرائیکس” جیسے ڈرامے کرچکا ہے، لیکن بھارتی عوام اور اپوزیشن جماعتوں کو ہی جواب نہیں دے سکا۔ اب دوبارہ بھارت میں مودی سرکار کو مذاق و تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اور سماجی حلقوں میں بھارتی انتخابات کے حوالے سے مودی سرکار کے خلاف شاعری میں طنز کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ سکھ برداری کو مشتعل کرنے کی کوشش پر انہوں نے ایسا بھرپور جواب مودی سرکار کو دیا ہے کہ ہندو انتہا پرست حکومت گھبرا گئی ہے۔ "سکھ فار جسٹس” کے رہنما گرپتونت سنگھ پنو نے بھارت کی مذمت اور کشمیری حریت پسند کی کھل کر حمایت کی ہے۔ جنگی جنون سے نقصان میں بھارت کے خود ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتے ہیں۔

………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔