ڈر کا بزنس

کچھ دن پہلے ایک ہی روز پاکستان اور بھارت کے حوالے سے دو خبریں دیکھیں۔ بھارت کے حوالے سے تو یہ خبر تھی کہ ان کی خلائی تحقیق کے ادارے نے ان کی کسی یونیورسٹی کے اشتراک سے تاریخ کا سب سے چھوٹا سیارہ لانچ کیا ہے جب کہ اسی دن پاکستان کے حوالے سے خبر تھی کہ میڈیم رینج میزایل کا تجربہ کیا گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں ٹیکنالوجی کے تنوع اور تجدید کی بات تھی، لیکن تھوڑا گہرائی میں جا کر اگر ان دو واقعات کا تجزیہ کیا جائے، تو یہ متضاد ترجیحات کا شاخسانہ نکلتی ہیں۔ تحقیق کے میدان کے لیے ترجیحات کے تعین کی پالیسی کا اس سے بدیہی طور پر اندازہ ہوتا ہے، اگرچہ پالیسی ڈاکومنٹ میں اس سے الٹ بات ہی کیوں نہ لکھی گئی ہو۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے لے کر آج تک ’’مشکل ترین دور‘‘ اور ’’ملک خطرے میں ہے‘‘ کے مغالطے مسلسل کار فرما رہے ہیں اور اسی ڈر کو بیچ کر اشرافیہ جو کہ اصل میں ’’بدمعاشیہ‘‘ ہے کا کاروبار روزافزوں ترقی پا رہا ہے۔ اس ضمن میں آج کل ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ کا بڑا چرچا ہے۔ قومی منظرنامے میں اس کو ہر حوالے سے فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے جب کہ دوسری جانب دنیا بھر کے تحقیقی اداروں میں فائیو جی (5G) ٹیکنالوجی کے ساخت و پرداخت، اس کو رائج کرنے اور چیلنجز سے نمٹنے کے مختلف لائحہ ہائے عمل اور اپنی معیشتوں کے ساتھ اس کی ہم آہنگی کے لوازمات کے حوالے سے کام ہورہا ہے۔
’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ سائبر وار کی ایک قسم ہے، جس میں ملک کے داخلی مسائل کو بڑھا چڑھا کر اس انداز سے پیش کیا جائے کہ انتشار اور انارکی پھیل جائے اور یوں ملک اپنے داخلی مسائل کے بوجھ سے ہی ختم ہوجائے۔ نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرکے لوگوں سے ایک ہونے کا جواز ہی لے لیا جائے۔ اس قسم کی سازشی تھیوریاں اتنی مرتبہ دہرائی جاچکی ہیں کہ اب پاکستان جیسے ماحول میں یہ آگے نہیں جچتیں۔ کیوں کہ عمل کی زبان محض دعوؤں کی زبان سے بہت زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ جیسا کہ انگریزی کا محاورہ ہے کہ "Actions speak louder than words.” پاکستان کا ہر ادارہ اس کی بنیادی اساس کو جڑوں سے کاٹنے کے عمل میں مصروف ہے۔ اسلام کے عدلِ اجتماعی کے تصور کو پسِ پشت ڈال کر سرمایہ دارانہ نظام کی دلالی کا عمل ہر سطح پر کارفرما ہے اور اکثریتی عوام کی طرزِ زندگی بد سے بدتر ہوئی جا رہی ہے۔ اب اگر اس میں ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ کا مقابلہ کرنا ہی ہے، تو ان مسائل اور وجوہات کو ختم کیے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ عوام نے نہ تو یہ مسائل پیدا کیے ہیں اور نہ ان کی اتنی اوقات ہی ہیں کہ ان کے حل میں کوئی معاونت کرسکیں۔ یہ ’’ڈر کا بزنس‘‘ ختم ہوجانا چاہیے اور اس کی بجائے حقیقت پسندانہ انداز سے ملک اور اس کے عوام کی ترقی و بہبود کے حوالے سے قلیل المدت اور طویل المدت پالیسیاں تشکیل دی جانی چاہئیں۔ یہی واحد راستہ ہے اس ملک کی بقا اور خوشحالی کا۔
ہم انڈیا کے ساتھ خود کو ہر وقت حالتِ جنگ میں تصور کرتے ہیں، تو اس کا اصل ہتھیار بھی سمجھنا چاہیے۔ وہ تحقیق کو جدید ٹیکنالوجی مارکیٹ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے روبہ عمل ہے اور پہلے ہی سے اکثریتی آئی ٹی کمپنیز میں خود کو بطور کارآمد پارٹنر کے منوا چکا ہے جب کہ ’’فائیو جی‘‘ کے حوالے سے اس کا وِژن مارکیٹ لیڈر کے طور پر خود کو منوانے کا ہے۔ ہمیں بھی انہی خطوط پر اپنی معیشت کو سہارا دے کر خود کو مقابلے کی اصل پوزیشن پر لانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ وگرنہ تو ’’ڈر کا بزنس‘‘ زیادہ دیر کام نہیں آنے والا۔ نشانِ منزل تو ہم سے پہلے ہی دھندلا چکے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بالکل ہی معدوم ہوجائے اور ہم بے نشان ہی رہ جائیں۔ وہ کیا منزل ہوگی جہاں سے راستے آگے نکل جائیں؟ سو اب پھر اِک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا۔

………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔