عوام وضاحتی بیان لگا کر ڈرائیو کریں

ہم بحیثیت مجموعی بہت بھلکڑ قوم ہیں۔ بہت جلدی ہم سانحات کو بھول جاتے ہیں یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں حادثات و سانحات اس قدر تیزی سے وقوع پذید ہوتے ہیں کہ ہمیں پچھلے سانحے کو یاد کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ نقیب اللہ محسود کا کیس اس کی تازہ ترین مثال ہے جو کچھ عرصہ میڈیا کی زینت بنا رہا، لیکن اس کے بعد ’’تو کون، میں کون؟‘‘ والا حساب ہوا اور میڈیا پہ اب اس کیس کے حوالے سے اکا دکا خبر ہی سننے کو ملتی ہے۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا، جس کے آنے کے بعد جہاں بہت سے منفی رجحانات نے جنم لیا ہے، وہاں سوشل میڈیا کا مثبت پہلو یہ واضح ہوا کہ یہاں بنا کسی کی منت کیے آپ مدعا ڈال سکتے ہیں اور لمحوں میں آپ تک نتائج بھی پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے اب معاملات کو پوشیدہ رکھنا کم و بیش ناممکن ہوگیا ہے۔ جب تک کہ کوئی نیا معاملہ سر نہ اُبھارے جس کی وجہ سے پرانا معاملہ سردخانے کی نذر ہو جائے۔
ہم روز ٹی وی پہ خبریں دیکھتے اور سنتے ہیں، اخبارات میں ہر روز پڑھتے ہیں کہ آج فلاں جگہ بندہ مارا گیا، فلاں جگہ ڈاکا پڑ گیا، اور اب تو حال یہ ہے کہ اتنی زیادہ اس طرح کی خبریں ہماری نظروں سے گزرتی ہیں کہ ہمیں فرق ہی نہیں پڑتا کہ کہاں قیمتی جان ضائع ہوئی؟ ساہیوال واقعے میں اگر سوشل میڈیا اپنا کردار ادا نہ کرتا، تو یہ معاملہ بھی شاید اب تک دب چکا ہوتا۔ کیوں کہ وقوعے کے فوراً بعد ایک چھوٹی سی خبر آ چکی تھی کہ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ ذمہ داروں کو تو پہلے لمحے سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہے، لیکن انہوں نے کس بے حسی سے اپنی غلطی پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور تمام افراد کو دہشت گردی کی فہرست میں ڈال دیا۔ بات پھیلی، بس میں موجود مسافر نہ جانے کیا سوچ کے ویڈیو بناتا رہا کہ سامان نکالنے کی ویڈیو سامنے آ گئی۔ آپ ہمارے سیاست دانوں اور اہم عہدوں پر براجمان افراد کی بلوغت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے، کہ کچھ افراد ٹی وی پہ آ کے آنسو بہاتے ہوئے اس سانحے کی مذمت میں لگ گئے اور کچھ اس پر پردہ ڈالنے اور اہلکاروں کو بچانے کی ڈیوٹی پہ لگ گئے۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ ایک سے زیادہ افراد اس معاملے میں کود پڑے۔ اور بنا کسی جے آئی ٹی کے ہر کوئی جب جان گیا کہ خلیل مرحوم کی فیملی تو کسی صورت دہشت گرد نہیں تھی، تو پھر معصومیت کا رونا شروع ہوا حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفرِ موج کی طرف سے۔ نہ جانے ہم وہ تبدیلی کب پائیں گے جس میں حکومتِ وقت بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی نظر آئے۔ صوبائی وزیرِ قانون اس پوری کارروائی کو اب بھی سو فیصد درست مانتے ہیں، نہ جانے کس زعم میں؟ سوال ان سے بس اتنا ہے کہ اگرآپ ایک فرد کے حوالے سے کلیئر نہیں ہیں اور آپ کو اس کے کسی مشکوک سرگرمی میں شامل ہونے کا شبہ ہے بھی، تو بھی جناب حد ہے کہ جس سانحے میں مشکوک فرد کے ساتھ تین انسانی جانیں چلی گئیں، وہ آپریشن آپ کے لیے سو فیصد کامیاب ہے؟ اور رہا سوال طریقۂ کار کا، تو ہم سنتے آئے ہیں کہ یہ فورس تو خصوصی تربیت یافتہ ہے اور اس میں انتہائی اعلیٰ صلاحیت کے حامل گنے چنے افراد شامل ہوتے ہیں۔ تو کیا ان کی ساری صلاحیت یہی ہے کہ وہ ایک نہتے فرد کر روک کر زندہ گرفتار نہ کر سکیں، جب کہ اس کا سیٹ بیلٹ مر جانے کے بعد بھی نہ کھلے؟ یہ اگر صلاحیت کا معیار ہے، تو نہایت سنجیدہ حوالوں سے اس پوری فورس کو بہتری کی طرف لانا ہوگا۔ کس کو شک ہے کہ دہشت گردی مٹانے میں کردار رہا ہے، لیکن ایسے واقعات تمام محنت پہ پانی پھیر دیتے ہیں۔ ایک عام سی گاڑی، اس میں بیٹھے نہتے لوگ (اب تک کی اطلاعات و خبروں کے مطابق) اور مقابلے پہ تربیت یافتہ نوجوان، جدید اور خود کار اسلحہ سے لیس تو مقابلے میں ایک دہشت گرد بھی ہو،تو کیا اسے پکڑنا اس قدر مشکل تھا کہ جان لینے کے سوا چارہ کوئی نہ بچا؟ گاڑی کے کالے شیشے، مسافروں کو دیکھ نہ سکنا، سب باتیں اپنی جگہ غلط ثابت ہو تی جا رہی ہیں۔ اور جیسے جیسے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں سوائے کوتاہی اور غفلت کے کچھ باقی بچتا نظر نہیں آ رہا۔
فرض کیا جس پہ آپ کو شبہ ہے وہ دہشت گرد ہو، تو بھی اس بہیمانہ قتل کے بعد تو وہ معاملہ بھی پسِ پشت چلا گیا ہے۔ آپ چاہے ہزاروں رپورٹس بنا لیں، چاہے اس مرنے والے کا تعلق کسی بھی تنظیم سے جوڑ لیں، کسی بھی طرح آپ پل بھر میں بے گناہ انسانی جانوں کو مار دینے کے جرم سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ ان کے ساتھ دہشت گرد تھا، تو بھی یہ طریقۂ کار آپ نے مجرم کو پکڑنے کا سیکھا ہے جس کا واویلا کیا جاتا ہے؟
پچھلے دنوں فرانس میں مظاہرین اور پولیس کا مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ مظاہرین کی ہر کوشش کے بعد بھی پولیس نے گولی نہیں چلائی، بلکہ واٹر کینن کا استعمال کیا لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے۔ اور ایک اور سوشل میڈیا کی وساطت سے آج کل ویڈیو زیرِ گردش ہے کہ پولیس ایک میاں بیوی کو گرفتار کرنا چاہتی ہے اور ان کی گاڑی روکتی ہے، تو ان کی بچی جسے شاید اس پوری کارروائی کا مطلب بھی نہیں پتا ہوگا، وہ گاڑی سے اُتر کے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر لیتی ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں کی جیسے ہی اُس بچی پہ نظر پڑتی ہے، وہ فوراً اسلحہ چھپا لیتے ہیں۔ وجہ یہ کہ اس پہ نفسیاتی طور پہ برا اثر نہ پڑے۔ اور یہاں آپ نے پورا خاندان گولیوں سے بھون ڈالا اور بچ جانے والے نونہالوں کی ذمہ داری اٹھانے کا ’’لالی پاپ‘‘ دیتے ہیں؟
ذیشان کے کردار کی سو مرتبہ چھان پھٹک کیجیے، لیکن آپ اسے زندہ گرفتار کرتے، تو یہ چھان پھٹک کرنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ وہ خود بتا سکتا تھا، لیکن آپ کی تربیت کا تو یہ عالم ہے کہ آپ کو تیرہ سالہ بچی بھی نظر نہیں آئی۔ اگر کوئی دہشت گرد بھی ثابت ہوتا ہے اس سانحے میں جانے والوں میں سے، تو اگر اسے قابو کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے، تو پھر افسوس سے اتنا ہی کہنا پڑے گا کہ عوام اپنی گاڑیوں پہ وضاحتی بیانات لگا کے چلیں۔

……………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔