اس ضمن میں باچا صاحب اور والی صاحب مختلف تاریخیں دیتے ہیں۔ والی صاحب کے مطابق یہ کام "اندازاً 31-1930ء” اور "1928ء تا 1932ء” میں ہوا جب کہ باچا صاحب کے مطابق یہ سلسلہ 1925ء میں شروع ہوا اور 1929ء میں مکمل ہوا۔
مارچ 1926ء میں اورِل سٹائن بیان کرتا ہے کہ "اُسے بتایا گیا ہے کہ بادشاہ (عبدالودود) اپنی رعایا کو اس عارضی تقسیمِ اراضی کی مصیبت سے نجات دلانے کے لیے کوشاں ہے۔” اِس طرح وہ اشارتاً بتاتا ہے کہ اُس کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جب کہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کی خفیہ ڈائری (سیاسی) میں مئی 1925ء میں یہ تحریر ملتی ہے: "میاں گل عبدالودود نے سوات بالا کے تمام قبائل کے سرکردہ راہنماؤں کو نل کے مقام پر مدعو کیا ہے تاکہ تمام حل طلب معاملات کو زیر بحث لایا جاسکے۔”
عزی خیل قبیلہ کے قائدین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے چک درہ کے مقام پر نوابِ دیرسے ملاقات کرکے اُسے اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے لیکن اب میاں گل نے بھاری انعام و اکرام سے نواز کر انہیں رام کر لیا ہے اور وہ قبائلی اراضی کے مستقل بندوبست پر راضی ہوگئے ہیں۔”
اس بیان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عمل 1925ء میں شروع ہوا۔ اس سے باچا صاحب کی روداد میں دی گئی تاریخ 1925ء تا1929ء کی تصدیق ہوتی ہے۔ جارج مارگنسٹرین نے بھی اپریل 1929ء میں سوات اور دیر کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ "عارضی تقسیم اراضی کا نظام صرف دیر میں رائج ہے۔”
مستقل بندوبست تو ہوگیا لیکن عارضی نظامِ ویش کو پوری ریاست سے ختم نہیں کیا جاسکا۔ دیہاتوں میں گھروں اور ان کے نزدیک واقع اراضی کو مستقل بنیاد پر لوگوں کو تفویض کردیا گیا، تاکہ گھروں کی تعمیر اور باغ وغیرہ لگانے کا کام ہوسکے لیکن ان دیہاتوں میں اراضی کی مستقل تقسیم کا عمل مختلف علاقوں میں مختلف اوقات میں کہیں بہت بعد میں کیا گیا۔ بعض جگہوں پر تو یہ کام ریاست کے ادغام کے بعد 1970ء کی دہائی میں سرانجام دیا گیا اور بعض دیہاتوں میں 1990ء کی دہائی میں یہ مکمل ہوا۔
وہ اراضی جس کا تبادلہ اس نظامِ ویش کے تحت ہوتا رہتا تھا، دوتر (دفتر) اور اس قسم کے مالکان دوتریان (واحد ۔ دوتری) کہلاتے تھے لیکن کچھ اراضی ایسی بھی تھی جو مروجہ نظامِ ویش سے مستثنا تھی۔ اس قسم کی اراضی کو سیریٔ کہا جاتا تھا اور اسے شیخ ملی کی تقسیم میں خاص قسم کے لوگوں کو تفویض کیا گیا تھا، جیسے سید، میاں، ملا اور صاحب زادہ ایچ جی راورٹی نے دوتر اور سیریٔ کے بارے میں کہا ہے: "اراضی کا وہ حصہ جو ( افغانوں، پختونوں کی) خخی شاخ کو تفویض کیا گیا تھا، اُسے اصطلاحاً دفتر کہا جاتا تھا اور جو اراضی سیدوں، میاں، ملا اور تین اتحادی قبائل کے حوالے کیا گیا، اُسے اصطلاحاً سیریٔ کہا گیا۔ ان اصطلاحی ناموں کا استعمال ابھی تک جاری ہے اور متنازعہ معاملات میں شیخ ملی کی طے کردہ تقسیم کا حوالہ آج تک دیا جاتا ہے۔ دفتر ایک فارسی لفظ ہے جس کا مفہوم ہے قلم بند معلومات، فہرست، اندراجات کی کتاب، دستاویزات کا ذخیرہ۔ یہاں اسے بطورِ صفت استعمال کیا گیا ہے یعنی قلم بند شدہ معلومات، اندراج شدہ چیزوں کی کتاب۔ اور سیریٔ پشتو لفظ ہے جس کا مفہوم ہے تقسیم شدہ، جدا، علاحدہ وغیرہ یہاں اس سے مراد ہے تفویض شدہ، حصہ کیا ہوا وغیرہ۔”
بعد ازاں اکثر قبائل نئی ویش (تقسیم) کے وقت اکثر نئی اراضی سیریٔ کے طور پر تفویض کیا کرتے تھے۔ ان اراضی کے مالکان کو سیری مار یا ستانہ دار کہا جاتا تھا۔ سیریٔ مساجد کو اور بعض اوقات پیش اماموں کوبھی تفویض کر دی جاتی تھی۔ تاہم بہت سے خوانین اور مَلَک بھی سیریٔ اراضی رکھتے تھے جسے تقسیم سے مختلف ناموں سے مستثنا قرار دے دیا جاتا تھا۔ مثلاً دَ خانئی سیریٔ (خان کے لیے مختص سیریٔ)، دَ ڈاڈے سیریٔ (مہمانوں کی مکئی کے بُھٹّوں سے تواضع کے لیے مختص سیریٔ) دَ میلمہ سیریٔ ( مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے مختص سیریٔ)، دَ تیلو سیریٔ (تیل یا حجرہ کے دیے کو جلانے کے لیے مختص سیریٔ)۔ اصولاً تو خان اور مَلَک کا منصب قبائل کی خواہش و منشا کے مطابق کسی کو دیا جاتا تھا، لیکن عملاً یہ منصب موروثی ہوتا تھا۔ اس لیے خوانین اور مَلَکوں کے خاندان ان سیریٔ اراضی کو اپنی ملکیت گردانتے ہوئے استعمال کرتے تھے۔ چوں کہ یہ قطعاتِ اراضی تقسیم کے اُس مروجہ نظام سے مستثنا ہوتی تھیں، اس لیے خوانین اور مَلَک اپنے دوتر کے علاوہ ان بڑے قطعاتِ اراضی سے بھی مستفیض ہوتے رہتے تھے۔ (کتاب “ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 196 تا 197 انتخاب)