صحافت کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے اپنے اساتذہ سے ایک سوال پوچھنا چاہتاہوں۔ چیلنج دے کر کہتا ہوں کہ سوائے چند کے، پاکستانی صحافیوں کو مثبت رپورٹنگ کرنا آتا ہی نہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ مثبت رپورٹنگ بھی کوئی چیز ہوتی ہے بلکہ ہمارا مزاج ہی یہ بن گیا ہے کہ اچھے سے اچھے کام میں جب تک نقص نہ نکال لیں، ہماری رپورٹنگ مکمل نہیں ہوتی۔ گذشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے قومی صحافت سے گزارش کی کہ چھے مہینے کے لیے مثبت رپورٹنگ کی کوشش کی جائے۔ جواب میں مذاق اُڑایا گیا اور لطیفے تخلیق کیے گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کا مجموعی جواب انتہائی غیرسنجیدہ اور بچکانہ تھا۔
پاکستانی صحافی منفی صحافت ہی کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں،لیکن ہماری منفی صحافت بھی معیاری نہیں۔ایک بری مثال دینے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔خدا نخواستہ کسی سکول میں بم دھماکا ہوتا ہے۔ ایک جونیئرصحافی بھی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ فوری طور پرجائے وقوعہ پر پہنچے، اور لائیو خبرکاری شروع کردے۔ وہ کہے گا کہ بہت ہی خوفناک دھماکا ہوا ہے۔ مقتولوں اور زخمیوں کی تعداد احتیاطاً زیادہ بتائے گا۔ کہے گا کہ ابھی تک امدادی کارروائیاں شروع نہیں ہوئیں۔ اتنا وقت گزر گیا لیکن ایمبولینس نہیں پہنچے۔ ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں اور نہ ادویات۔ پھر وہ سٹریچر پر پڑے مریض سے یہ بھی کہلوا دے گا کہ ’’ہائے، میں مر گیا۔‘‘
بم دھماکا یقینا ایک بہت دردناک سانحہ ہوتا ہے، لیکن ہماری منفی صحافت اس کو مزید دردناک بنا کر پیش کرے گی۔ بعد میں اس پر پروگرام بھی ہوں گے اور تجزیے ہوں گے کہ ناقص سیکورٹی تھی۔ دو سو کلومیٹر دور فوجی پھاٹک تھا۔ اس کے باوجود یہ سانحہ کیسے ہوگیا؟ فلاں اور فلاں اور فلاں کی ناکامی ہے، وغیرہ۔اینکر باربار رپورٹر سے پوچھتا ہے کہ دوبارہ بتائیے کتنے لوگ مرے ہیں؟ جواب سن کر پھر پوچھتا ہے کہ اچھا جن ناظرین نے ہمیں ابھی جوائن کیا ہے ان کے لیے ذرا ایک بار پھر بتائیے کہ کتنے لوگ مرے ہیں؟ اس طرح ایک بم دھماکے سے بیسیوں ٹی وی چینلوں اور اخبارات کا پیٹ بھر جاتاہے۔ کسی تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے ، نہ ریکارڈنگ کی اور نہ ایڈیٹنگ کی۔ کیوں کہ دہشت گردی کی رپورٹنگ سب سے کم خرچ، سب سے زیادہ سنسی خیز اور جلدی تیار ہونے والا مواد (content) ہوتاہے۔
لیکن فرض کریں کہ سکول میں بم دھماکا نہیں ہوتا۔ تو پھر……
یقین کیجیے کہ ہمارا صحافی خالی الذہن ہوجاتاہے۔ اس بیچارے کو کوئی آئیڈیا نہیں کہ جب سکول میں بم دھماکا نہیں ہوا، تو پھر میں کیا کہوں؟ جب سکول میں امن ہے، تو خبر کیسی؟ یہ خبر ہی نہیں کہ اس سکول میں پندرہ سو بچے پڑھتے ہیں۔ اتنے اساتذہ ہیں۔ امتحان، نتائج، یومِ والدین، ذہین بچوں کے لیے انعامات، ان کی باتیں، مستقبل کے خواب، کوئی بچہ یا استاد معذور ہے، تو وہ کیسے سکول آتا جاتاہے؟ وغیرہ۔یہ سب کوئی خبر نہیں۔ کمال ہے!
ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر پانچ گھنٹوں میں تین سو مریضوں کا معائنہ کرتاہے، کوئی خبر نہیں۔ لیکن اگر یہی ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی پر موجود نہ ہو، تو پھر کافی ’’مزے کی‘‘ خبر بنائی جاسکتی ہے۔ ہماری صحافت کا کام کیڑے نکالنا رہ گیا ہے۔ جہاں گندگی وہاں صحافت۔ دس لاکھ لوگوں کا پُرامن جلوس پورے نظم وضبط سے جارہاہو اور دوسری سڑک پر پچاس لوگوں کا جلوس کسی گاڑی کو آگ لگادے، تو میڈیا کے تمام کیمرے آگ لگانے والوں کی طرف مڑ جائیں گے۔ پُرامن جلوس منظر سے غائب ہوجائے گا۔ صحافی کی بھی مجبوری ہوتی ہے۔ مالکان، انتظامیہ اور یہاں تک کہ ناظرین بھی آگ والے جلوس کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن صحافی عوامی پسند وناپسند کو تشکیل دینے والا ہوتا ہے۔ اسے عوامی پسند وناپسند کی پیروی کرنے والا نہیں ہونا چاہیے۔
اس ملک کو ایک ولولہ انگیز صحافت کی ضرورت ہے جو پُرامن حالات میں بھی خبر دینے کی قابلیت رکھتی ہو۔ جو عوامی رائے کی پیروی نہیں بلکہ رہنمائی کرے۔ لوگوں کو نیا حوصلہ دے۔ تعلیم کی دنیا صحافت کے لیے ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ طب ایک الگ دنیا ہے۔ کھیل ایک پوری زندگی ہے۔کاروبار، زراعت اور بہت سی دنیائیں ہیں، لیکن ہماری صحافت سیاست سے شروع ہوتی ہے اور سیاست پر ہی ختم ہوتی ہے۔
ہم جنگ اور بدی کی خبر دینے میں تو بڑی تیزی دکھاتے ہیں، بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں لیکن امن اور نیکی کی خبر ہمیں نظر ہی نہیں آتی۔ ہمارے بڑے بڑے صحافیوں کی صحافت منفی رپورٹنگ پر قائم ہے۔ آپ مثبت صحافت کر کے بڑے صحافی بن ہی نہیں سکتے۔وسعت اللہ خان صاحب کی تحریروں میں معلومات کا دریا بہتا ہے، لیکن ان تمام معلومات کا نچوڑ یہ ہوتا ہے کہ پاکستان بخشو ہے اور خراب ترین ملک ہے ۔طلعت حسین صاحب جیسے صحافی کو شاید کچھ اچھا نظر بھی آئے لیکن اگر وہ اچھی (یعنی مثبت ) رپورٹنگ کریں گے، تو لوگ انہیں بکا ہوا سمجھیں گے اور ان کی ریٹنگ نیچے رہے گی۔ دراصل منفی سوچ کے اس حمام میں ہم سب ایک جیسے ہیں۔یہ صرف صحافتی نہیں، بلکہ قومی المیہ ہے کہ ہم لٹ لے کر برائیوں کی تلاش میں نکلے ہیں اور اچھائیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ہماری صحافت نے ہماری جو سوچ بنائی ہے، اس کے مطابق سیاست دان چور ہیں، وہ بھی سارے کے سارے ۔ فوج جمہوریت کی دشمن ہے۔ بیوروکریسی کرپٹ ہے۔ ڈاکٹر غفلت کا مظاہرہ کرنے والے ہیں۔ پولیس قاتل ہے۔ یہ سب باتیں کسی حد تک درست ہیں۔ لیکن صحافت کا کام ان لوگوں کی تلاش ہے جو سیاست دان ہوتے ہوئے بھی دیانت دار ہوں۔ جو فوجی ہوتے ہوئے جمہوریت پسند ہوں۔ جو ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرتے ہوں۔ جو پولیس والے ہوتے ہوئے بھی ایمان داری سے اپنا فرض پورا کرتے ہوں۔
پاکستان میں اب بھی پورا پورا دن، گھنٹے گھنٹے کے نیوزبلیٹن چلتے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک چیخ و پکار، لڑائی مارکٹائی سے بھرپور، تو کیا بائیس کروڑ لوگوں کے ملک میں کچھ بھی اچھا نہیں؟ یا آپ میں "Color Blind” کی طرح اچھی چیزیں دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں؟ یا پھر آپ کو مثبت رپورٹنگ کرنا نہیں آتا۔
بس یہی پوچھنا تھا……!
………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔