کاش، ایک لارڈ میکالے ہم میں بھی پیدا ہوتا

’’معزز اراکینِ پارلیمان! میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں بارہا سفر کیا ہے۔ مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ میں نے وہاں دولت کی کثرت دیکھی۔ میں نے وہاں کے لوگوں کو بلند اخلاق سے آراستہ پایا۔ میں نے ان لوگوں میں سمجھ بوجھ کی اچھی صلاحیت دیکھی۔ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کرسکتے جب تک ہم ان کے دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں، جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ میرے پارلیمان کے رفیقو، اسی لیے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظامِ تعلیم اور تہذیب تبدیل کر دیں۔‘‘
عزیزانِ من! یہ بل برطانوی مفکر اور سیاست دان ’’لارڈ میکالے‘‘ نے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں اس وقت پیش کیا تھا، جس وقت ہندوستان میں فارسی، عربی اور سنسکرت زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم آج تک یہ سمجھ نہیں سکے کہ ہماری تہذیب و ثقافت پر انگریزی تہذیب و ثقافت کیسے غالب ہوئی؟ جب لارڈ میکالے برطانیہ سے جدید نظامِ تعلیم کی اسکیم لے کر ہندوستان پہنچا، تو اس وقت ہمارے اکثر مذہبی رہنماؤں نے اس کی شدید مخالفت کی، جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں ایک نئی فکر پیدا ہوئی کہ ہر جدید تعلیم دنیا اور ہر قدیم تعلیم دین ہے۔ لہٰذا ہمیں صرف دین ہی کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ حالاں کہ اسلام میں جدید و قدیم علوم کا سرے سے کوئی تصور ہے ہی نہیں۔ اسلام تو مسلمان کو اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ ’’ہر اچھی اور دانائی کی بات مؤمن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں بھی وہ ملے اس کو قبول کرے۔‘‘ اس جدید اور قدیم کی تفریق کا فائدہ انگریز کو یہ ہوا کہ جدید علوم اور ترقی کی دوڑ سے مسلمانوں کی اکثریت باہر ہوگئی، اور انگریزوں نے بڑی آسانی کے ساتھ اپنے نظامِ تعلیم کی بدولت ان بچے کھچے مسلمانوں کی نسل کو اپنی تہذیب و ثقافت کا غلام بنا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان باقی مسلمانوں کی نسل نے بھی اس جدید نظامِ تعلیم کو قبول کیا، جنہوں نے پہلے انکار کیا تھا۔ نتیجتاً مسلمان اپنی تہذیب اور نظامِ تعلیم کو چھوڑ کر انگریزوں کی نقالی پر فخر محسوس کرنے لگے۔
عزیزانِ من! انگریز نے ہندوستان میں جدید علوم کی تعلیم انگریزی زبان میں رائج کی، یعنی جو کتابیں اردو، عربی، فارسی یا سنسکرت زبان میں پڑھائی جاتی تھی، وہ اب انگریزی زبان میں پڑھائی جانے لگیں۔ کاش، اس وقت ہمارے مذہبی رہنماؤں نے اس پر جدیدیت کا لیبل چسپاں کرنے اور اس کو دین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی بجائے ان علوم کو اپنی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے جدوجہد کرتے، تو آج نقشہ بالکل مختلف ہوتا۔ آج انگریز غالب ہوتا اور نہ انگریزی تہذیب ہی سر چڑھ کر بولتی۔ کاش، ہم آج بھی اسلامی تعلیمات میں غور و فکر کرتے کہ اس الہامی دین کی پہلی وحی لفظ ’’اقراء‘‘ سے شروع ہوکر تعلیم وتدریس کی ضرورت اور اہمیت کو کتنا واضح کرتی ہے، جس کی عملی تفسیر کے لیے رسولؐ اللہ نے مکی اور مدنی ادوار میں جماعتِ صحابہ کی دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا، جس کی بدولت انسانی تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ شمعِ رسالتؐ کے ان پروانوں نے دنیا کی امامت کی اور شرق تا غرب علم کی روشنی کو خوب پھیلایا۔ اس کی اصل وجہ قرآنِ حکیم کی تعلیم تھی جس نے عرب کے ان صحرا نشینوں کو دینی اور دنیاوی علوم کا علمبردار بنایا۔ چناں چہ قرآنِ حکیم میں ہم دیکھتے ہیں کہ شروع سے آخر تک بار بار اور صریح الفاظ میں اندھی تقلید کو برا ٹھہرایا گیا ہے اور اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہر شخص خود اپنی طور پر غور و فکر کریں اور کسی رسم و رواج کی پیروی محض آبائی و مورثی ہونے کی بنا پر نہ کریں۔ کسی اور مذہبی کتاب میں فطرت کے مطالعہ پر اتنا زور نہیں دیا گیا ہے جتنا قرآن حکیم نے دیا ہے۔ سورج، چاند، سمندر کی موجیں، دن اور رات، چمکتے ستارے، دمکتا فجر، پودے اور حیوانات…… تمام ہی قوانینِ فطرت کے تابع بنائے گئے ہیں، جن سے ان کی خالق کی قدرت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ قرآنِ حکیم کے مطابق علم لامتناہی ہے۔ محمد رسول اللہ (صلعم) اس علم کی کتنی قدر کرتے تھے، اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگائیں کہ ایک دن محمد عربیؐ مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے، تو دیکھا کہ کچھ لوگ نوافل اور خدا کی عبادت میں مشغول ہیں اور کچھ لوگ دین کی تعلیم و تعلّم میں منہمک۔ آپؐ نے فرمایا کہ دونوں ہی اچھا کام کر رہے ہیں۔ البتہ ایک کا کام زیادہ اچھا ہے۔ جو لوگ خدا سے کچھ مانگ رہے ہیں، ان کے متعلق خدا کی مرضی ہے کہ چاہے تو دے، چاہے تو نہ دے۔ زیادہ اچھے لوگ وہ ہیں جو علم حاصل کر رہے ہیں اور جہالت کو دور کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں بھی معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے آپ نے اس حلقے میں اپنے لیے جگہ بنائی اور بیٹھ گئے۔ رسولؐ اللہ نے ہجرت کے بعد سب سے پہلے مدینہ منورہ سے ناخواندگی دور کرنے کے لیے اقدامات کیے اور اس کام کی نگرانی آپ خود کرتے تھے۔ چناں چہ اس سلسلے میں آپ نے سعید بن العاصؓ کا تقرر کیا کہ لوگوں کو لکھنے اور پڑھنے کی تعلیم دیں۔ وہ خوش نویس بھی تھے۔ آپ کو خواندگی سے اتنی دلچسپی تھی کہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کا فدیہ آپ نے یہ مقرر کیا تھا کہ ایک قیدی دس بچوں کو لکھنا سکھائے۔ رسولؐ اللہ خط کی صفائی اور وضاحت کی اکثر تلقین فرماتے تھے اور یہاں تک کہتے تھے کہ کاغذ کو موڑنے سے پہلے اس کی سیاہی کو ریگ ڈال کر خشک کر لیا کرو۔ حرف ’’س‘‘ کے تینوں شوشے برابر دیا کرو اور اس کو بغیر شوشوں کے نہ لکھا کرو۔
عزیزانِ من! اس خلاصۂ بشرؐسے تو یہاں تک منقول ہے کہ لکھتے وقت اگر کچھ رکنا پڑے، تو کاتب کو چاہیے کہ قلم اپنے کان پر رکھ لے۔ رسولؐ اپنے صحابہ کو مختلف زبانیں سیکھنے کی بھی تاکید کرتے تھے۔ حضرت زید بن ثابتؓ جو دربارِ رسالتؐ کے میر منشی کہلائے جاسکتے ہیں، فارسی، حبشی، عبرانی اور یونانی زبانیں جانتے تھے۔ عبداللہ بن زبیر کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہ 100 کے قریب زبانیں جانتے تھے۔ رسولؐ کی تعلیمات کا اثر یہ ہوا کہ آپ کے بعد آپ کے جانشینوں نے جس قوم پر بھی توحید کا جھنڈا لہرایا، اس قوم کے علوم کی کتب کو عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ عہدِ صحابہ و تابعین میں اس کی مثالیں ملتی ہیں جس میں عہدِ فاروقی اور عہدِ اموی میں مختصر لیکن عہدِ عباسیہ میں گراں قدر کام ہوا۔ عباسیوں نے یونانی، فارسی، ہندی اور سریانی تصنیفات کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کیا تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے ان کو منتظم صورت میں رکھنے کیلئے ایک عظیم الشان محکمہ قائم کیا جس کا نام بیت الحکمہ رکھا۔ اس میں ہر زبان، ہر مذہب کے ماہرینِ فنِ ترجمہ کے کام پر مامور کیے گئے۔
عزیزانِ من، قصہ مختصر دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے اپنی ہی زبان میں تعلیم حاصل کرکے ترقی کی ہے۔ آج چین کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ چینی زبان پوری طاقت اور فخر سے ملک کے طول و عرض میں رائج ہے۔ جرمنی میں نظامِ تعلیم جرمن زبان میں رائج ہے۔ فرانس اور اٹلی میں اپنی اپنی زبان ہی کو ذریعۂ تعلیم بنایا جا رہا ہے۔ جاپان جس کو تاریخ کی اذیت ناک سزا دی گئی تھی، لیکن جاپانی قوم آج بھی اپنی زبان کے ساتھ پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی ہے۔ خود برطانیہ اور امریکہ میں بھی انگریزی کے سوا کسی دوسری زبان کو تعلیمی یا حکومتی نظام میں مداخلت کی جرأت نہیں۔ انگریز نے ہم سے ہماری زبان چھین لی اور تاریخ کا یہ مسلمہ فیصلہ ہے کہ کوئی قوم دوسری قوم کی زبان میں علمی ترقی حاصل نہیں کر سکتی۔ آج اپنی زبان اور اعلیٰ تہذیب کے متعلق یہ احساسِ کمتری ’’لارڈ میکالے‘‘ جیسے دانشوروں کی دی ہوئی لائن پر چلتے ہوئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہماری قوم کے قلوب و اذہان میں سرایت کر گئی ہے۔ کاش، آج ہم میں بھی کوئی لارڈ میکالے جیسا مفکر و سیاست دان پیدا ہو جائے اور وہ ہماری پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ تجویز پیش کرے کہ ’’معزز ممبرانِ پارلیمان، میں نے پاکستان کے طول وعرض میں بارہا سفر کیا ہے۔ مجھے یہاں بھکاری بھی اور چور بھی نظر آئے۔ میں نے یہاں غربت کی بڑھتی شرح بھی دیکھی، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کے اخلاق بھی بگڑتے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس وقت تک ہم اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرسکتے جب تک ہم اپنی دینی و ثقافتی اقدار کو قائم نہ رکھیں جو ہماری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہم اپنے نظامِ تعلیم کو اپنی زبان میں رائج کریں، تاکہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کے ذریعے اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر سکیں۔‘‘

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔