ہمیں سال کے اختتام پر، نیز وقتاً فوقتاً یہ محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہمارے نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں؟ کیا ہم نے امسال اپنے نامۂ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لیے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامۂ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا و آخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی اطاعت میں بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی؟ ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا ہوئے یا نہیں؟ ہماری نمازیں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا ہوئیں یا پھر وہی طریقہ باقی رہا جوبچپن سے جاری ہے؟روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر اللہ کا خوف پیدا ہوا یا صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھا یا نہیں؟ ہمارے معاملات میں تبدیلی آئی یا نہیں؟ ہمارے اخلاق، نبی اکرمؐ کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں؟ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں کو پہنچایا یا نہیں؟ ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے یا صرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر کرتے رہے؟ ہم نے امسال انسانوں کو ایذائیں پہنچائیں یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کیے، ہم نے یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کی یا صرف تماشا دیکھتے رہے؟ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں، ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کیے یا نہیں؟
جس طرح مختلف ممالک، کمپنیاں اور انجمنیں سال کے اختتام پر اپنے دفتروں میں حساب لگاتے ہیں کہ کتنا نقصان ہوا یا فائدہ؟ اور پھر فائدے یا نقصان کے اسباب پر غور وخوض کرتے ہیں۔ نیز خسارہ کے اسباب سے بچنے اور فائدہ کے اسباب کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں سال کے اختتام پر نیز وقتاً فوقتاً اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ کس طرح ہم دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی حاصل کرنے والے بنیں، کس طرح ہمارا اور ہماری اولاد کا خاتمہ ایمان پر ہو، کس طرح ہماری اُخروی زندگی کی پہلی منزل یعنی قبر جنت کا باغیچہ بنے؟ جب ہماری اولاد، ہمارے دوست و احباب اور دیگر متعلقین ہمیں دفن کرکے قبرستان کے اندھیرے میں چھوڑکر آجائیں گے، توکس طرح ہم قبر میں منکر نکیر کے سوالات کا جواب دیں گے، کس طرح ہم پلِ صراط سے بجلی کی طرح گزریں گے؟ آخرت کی کامیابی و کامرانی ہی اصل نفع ہے جس کے لیے ہمیں ہر سال، ہر ماہ، ہر ہفتہ بلکہ ہر روز اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔
ہم نئے سال کی آمد پر عزمِ مصمم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں، اِن شاء اللہ اپنے مولا کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی ہم بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لیے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔ (مستدرک الحاکم ومصنف بن ابی شیبہ)
اسی طرح حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دے دے: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی حصولِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام؟ مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کیے یا نہیں؟ علم پر کتنا عمل کیا؟ (ترمذی)
غرض یہ کہ ہمیں اپنی زندگی کا حساب اپنے خالق ومالک ورازق کو دینا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
قارئین، نئے سال کی مناسبت سے دنیا میں مختلف مقامات پر ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ کے نام سے متعدد پروگرام کیے جاتے ہیں اور ان میں بے تحاشا رقم خرچ کی جاتی ہے۔ حالاں کہ اس رقم سے لوگوں کی فلاح وبہبود کے بڑے بڑے کام کیے جاسکتے ہیں، انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بننے والی دنیا کی مختلف تنظیمیں بھی اس موقع پر چشم پوشی سے کام لیتی ہیں، مگر ظاہر ہے کہ ان پروگراموں کو منعقد کرنے والے نہ ہماری بات مان سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اس وقت ہمارے مخاطب ہیں، لیکن ہم مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ یہ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد ہے۔ پوری امتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شریعت اسلامیہ میں کوئی مخصوص عمل اس موقع پر مطلوب نہیں ہے اور قیامت تک آنے والے جن و انس کے نبی حضور اکرمؐ، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، مفسرین، محدثین اور فقہا سے "Happy New Year” کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس طرح کے مواقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے: (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے، یعنی جہاں ناحق اور ناجائز کام ہو رہے ہوں، اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اُن میں شامل نہیں ہوتے۔ اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں، تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ یعنی لغو وبے ہودہ کام میں شریک نہیں ہوتے ، بلکہ برے کام کو برا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ (سورۃ الفرقان 72)

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔