سوات میں ادبی سرگرمیاں

ایک زمانے سے وادئی سوات ادب کے حوالے سے زر خیز چلی آرہی ہے۔ اس سرسبز وادی میں وقتاً فوقتاً ادب کے پھول کھلتے آ رہے ہیں جنہوں نے اس رنگین وادی کو خوشنما بنا کر اپنی ادبی خوشبوؤں سے معطر کر دیا ہے۔کبھی تو خوشبوؤں کی یہ مہک وادئی سوات کے ساتھ ساتھ وادئی پشاور کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس حوالہ سے فیضانؔ، سیف الملوک صدیقیؔ، غوبہ جان اور بعد میں رحیم شاہ رحیم، محمد پرویش شاہین جیسے مایہ ناز ادبی مناروں کو کون بھول سکتا ہے۔ اب اس سلسلے میں ہم موجودہ ادبی شہسواروں میں عبدالرحیم روغانےؔ بابا، حنیف قیسؔ، احمد فوادؔ، عطاء الرحمان عطاؔ، سیراج الدین سراجؔ، ظفر علی نازؔ، احسانؔ اللہ یوسف زئی اور دوسرے بہت سوں پر فخر کرسکتے ہیں۔ سوات ادبی سرگرمیوں کی آماجگاہ رہا ہے۔ یہاں ہر وقت مختلف ناموں اور حوالوں سے ادبی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ اگر ایک جانب تاریخی اور تحقیقی فن پاروں کے حوالے سے محمد پرویش شاہینؔ کی پوری دنیا میں ایک پہچان ہے، تو دوسری طرف معاشرتی، سماجی، تاریخی اور سیاسی حوالوں سے درجنوں کتابوں کے خالق فضل ربی راہیؔ صاحب پر ہر کوئی بجا طور پر فخرکرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے وہ ایک مشفق اُستاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شعر و شاعری میں جھنڈے گاڑنے کے ساتھ ساتھ نثر لکھنے میں بھی سرزمینِ سوات نے انمول اورنایاب گوہر پیدا کیے ہیں۔ کتنی حیرت اور خوشی کی بات ہے کہ مقامی روزناموں خاص کر ’’روزنامہ آزادی‘‘ میں تمام کالم سوات کے قلمکاروں کے کمالات ہیں۔ مشہور کالم نگارتصدیق اقبال بابو نے تو ہرنئی کتاب پر تبصرہ اور تعارف لکھنا اپنا ادبی فریضہ سمجھ لیا ہے۔ کتاب خواہ شعر و شاعری کی ہو یا نثر میں لکھی گئی ہو خالق اور تخلیق دونوں پر بابوؔ اپنے کالم کے خوبصورت الفاظ کے پھول برسانا اپنی اخلاقی اور ادبی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
دسمبر کا مہینہ وادئی سوات میں ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے خاصا گرم اور مصروف رہا۔ 15 دسمبر بروز ہفتہ کو ودودیہ ہال میں ’’پختو ڈیپارٹمنٹ جہان زیب کالج‘‘ اور ’’ایلم پختو ادبی کلتوری ٹولنہ‘‘ کی طرف سے ایک آزاد مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ودودیہ ہال مہمانوں اور طلبہ و طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اس شان دار مشاعرے کی صدارت سوات کے عظیم اور نامور ادیب ابراہیم شبنمؔ فرما رہے تھے جب کہ مہمانِ خصوصی معروف شاعر بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانےؔ صاحب تھے۔ مہمان شعرا میں ڈاکٹر شیر زمان سیمابؔ، ڈائریکٹر پشتو اکیڈیمی، بخت زادہ دانشؔ، اقبال شاکرؔ اور نوازیوسف زئی شامل تھے۔ نئے نوجوان طلبہ و طالبات نے اپنی شاعری سے سامعین کو محظوظ کیا۔ مقامی شعرا میں حنیف قیسؔ، احسان یوسف زئی، سردار زیبؔ اور افسرالملک افغانؔ نے اپنی خوبصورت شاعری سے ایک سماں باندھ لیا۔ خواتین شعرا میں حسینہ گلؔ، نیلم آرزوؔ، نازیہ درانی اور گلِ رعنا تبسمؔ نے اپنی غزلوں اور نظموں سے سامعین کے دل موہ لیے، جب کہ بی ایس پشتو کی فسٹ سمسٹر کی طالبہ صابرہؔ نے اپنی خوبصورت شاعری سے سب کو حیران کر دیا۔ نوجوان طلبہ و طالبات نے مزاحمتی شاعری کرکے اپنے دلوں کی بھڑاس نکال دی۔ موجودہ فرسودہ سماج کے ظلم و جبر اور رسم و رواج کے مضبوط اور دبیز پردوں کو چاک کر دیا۔ پروفیسر عطاء الرحمن عطاؔ صاحب اس خوبصورت مشاعرے کے روحِ رواں تھے۔ اس کے بہترین ترتیب و انتظام نے اس پورے پروگرام کو شان دار بنادیا تھا۔تمام شعرائے کرام کو قیمتی شیلڈوں اور ایوارڈوں سے نوازا گیا۔
غمونہ اندیخنی خو بی تپوسہ زڑہ کے اوسی
لٹومہ خوشحالی چی خنداگانی پہ نصیب کڑم
بہترین شخصیت اور عوامی شاعر جناب جہانزیب دلسوزؔ کا دوسرا پختو شعری مجموعہ ’’نصیب‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔ اس سے پہلے 2016ء میں دلسوزؔ صاحب کا پہلا پختو شعری مجموعہ’’اغیز من احساسات‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ وہ سوات ادبی ثقافتی غورزنگ مٹہ کے صدر ہیں۔ وہ نہایت نفیس اور ہمدرد انسان ہیں اور اُس کی یہی نفاست اور ہمدردی اُن کے اشعار میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ شعر کو بخوبی سمجھتے ہیں۔انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے دل کے زخموں کے ساتھ ساتھ پختون قام کے دُکھوں اور مظلومیت کو بھی جگہ دی ہے۔ وہ بیک وقت سماج کے جبر و اکراہ پر طعنہ زن ہیں۔ فنی لحاظ سے اُس کی شاعری ہر معیار پر پورا اترتی ہے۔ اُس کے اپنے دُکھوں نے اُس کی شاعری کے حسن کو چارچاند لگائے ہیں۔
قارئینِ کرام! 15دسمبر کو ہی سمبٹ مٹہ کے ایک پرائیویٹ سکول ’’ایگل فورٹ پبلک سکول‘‘ میں دلسوزؔ صاحب کی کتاب ’’نصیب‘‘ کی تقریبِ رونمائی ہوئی۔ اس شان دارمحفل کی صدارت پشاور پختون کوٹ برتہکال سے آئے ہوئے معزز مہمان شاعر اور ادیب جناب سید صابر شاہ صابرؔ نے فرمائی جب کہ مہمانِ خصوصی پشتو اکیڈیمی کے ڈائریکٹر جناب شیر زمان سیمابؔ صاحب تھے۔ اعزازی مہمانانِ گرامی میں ادیبِ سوات محترم ابراہیم شبنمؔ صاحب، کرم مندوخیل، مردان کے شاعر لعل بادشاہ، وکیل خیر الحکیم حکیم زئی، تصدیق اقبال بابو، ابراہیم دیولئی، حنیف قیسؔ، ظفر علی نازؔ، کالم نگار ساجد ابوتلتان، امجد علی سورجؔ، احسان اللہ یوسف زئی، رحیم اللہ شاہینؔ، فضل محمد سواتیؔ، راقم اور علاقے کے بہت سارے معزز اور تعلیم یافتہ افراد شامل تھے۔ ظفر علی نازؔ نے کتاب اور مصنف کے حوالے سے خوبصورت نظم سناکر سامعین کے دل موہ لیے۔ مشہور کالمسٹ جناب تصدیق اقبال بابو نے اپنے تفصیلی اور جامع مقالے میں کتاب اور مصنف کے بارے میں اپنے زریں خیالات سامعین کے سامنے پیش کیے جسے بار بار سراہا گیا۔ ابراہیم شبنمؔ صاحب، شیر زمان سیماب، خیر الحکیم حکیم زیٔ، کرم مندوخیل اور راقم نے اپنے مختصر خطاب میں جہان زیب دلسوزؔ کو کتاب کی مبارک باد دی اور ان کی قلمی کاوشوں اور پشتو زبان کی خدمات کو سراہا۔ پشاور کے معزز مہمان محترم سید صابر شاہ صابرؔ المعروف باچاجی نے اپنے صدارتی خطاب میں سامعین اور علاقے کے معززین کی توجہ پشتو زبان کے علم وفن کی طرف دلائی کہ وہ اپنے علاقے کے فنکاروں، شعرا اور قلمکاروں کی قدر کریں۔ انہیں عزت واحترام دیں۔ اُن کی تخلیقات کو حاصل کریں اور پڑھ لیا کریں۔ وقت کی کمی کے باعث مردان کے معزز مہمان لعل بادشاہ صاحب اپنا مقالہ نہ سناسکے، لہٰذا انہوں نے اپنا مقالہ جہان زیب دلسوز کو پیش کر دیا۔ رات گئے یہ پُروقار تقریب اختتام پذیر ہوئی جس میں پُرتکلف عشائیہ بھی شامل تھا۔
قارئین کرام! 9 دسمبر کو ہائی سیکنڈری سکول کبل میں پشتو ادبی کلتوری نڑیوالہ جرگے کے زیر اہتمام سوات کے مشہور شاعر فضل الرحمان فیضانؔ کے حوالے سے ’’یادِ فیضان‘‘ کے نام سے ایک یادگار پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔اس یادگار محفل کے روحِ رواں پختو ادبی کلتوری نڑیوالہ جرگے کے بانی اور چیئرمین جناب بخت زردریابؔ تھے۔ ان کے ساتھ جنرل سیکرٹری فیض علی صدفؔ نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض ادا کیے۔ فیضانؔ مرحوم کے ہونہار بیٹے شاعر اور خطاط محترم شمس الاقبال شمسؔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ صدارت بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانےؔ کر رہے تھے۔ اعزازی مہمانانِ گرامی میں ابراہیم دیولئی، الیکشن کمشنر ملاکنڈ ڈویژن جاوید اقبال نادان خٹک، تصدیق اقبال بابو، سرور خٹک، ناظم رحمت علی خان، مزدور لیڈر فضل حمید، عنایت اللہ خان عامر پرنسپل ہائی سیکنڈری سکول اور راقم شامل تھے۔ سارے معزز مہمان سٹیج پر رونق افروز تھے۔ فیضانؔ مرحوم کی زندگی اور شعر و شاعری کے حوالے سے ریڈیو پاکستان پشاور کے نمائندوں نے ایک صوتی ڈاکومنٹری پیش کی۔ مختلف مقررین نے فیضانؔ صاحب کے حوالے سے اپنے مقالوں اور خطابات سے سامعین کو محفوظ کیا۔
راقم اور تصدیق اقبال بابو نے بہ حیثیت کالمسٹ مشترکہ طور پر ایک اعزازی شیلڈ شمس الاقبال شمسؔ صاحب سے وصول کیا۔ آپ اپنے والد فیضان کی طرح مجسم اخلاق و اخلاص ہیں۔ اس یادگار محفل کی میزبانی ناظم رحمت علی خان نے کی۔ آخرمیں شرکائے محفل کو پُرتکلف کھانا کھلایا گیا۔ کھانے کے بعد مشاعرے میں شرکت کے لیے سب کو دعوت دی گئی۔
قارئین کرام! سوات میں ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے یہ تھا چند مخصوص تقریبات کا حال احوال جو دسمبر کے مہینے میں منعقد ہوئیں۔ باقی احوال اِن شاء اللہ پھر کبھی۔

……………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔