کانڑا پر قبضہ کے بعد سوات کے حکمران کا اباسین کوہستان کے کوہستانیوں سے آمنا سامنا ہوگیا۔ مئی 1925ء میں اُس نے وادئی کورمنگ کے نقطۂ آغاز پر حملہ کرکے اُسے قبضہ کرلیا۔ 1926ء کے موسمِ گرما میں کوہستانی پھر پریشان کرنے لگے تھے۔ 31 اگست کو عبدالودود پولیٹیکل ایجنٹ سے ملنے ملاکنڈ گیا۔ اُس نے بتایا کہ اُس نے کوہستانیوں کے خلاف فوج بھیجنی اس لیے ضروری سمجھی، جو کہ کانڑا اور غوربند کے قریب شمال میں رہتے ہیں، تاکہ انہیں مسلسل ان علاقوں پر حملوں کی سزا دیں۔
اُس کی فوج نے سخت لڑائی کے بعد بشام اور لاہور پر قبضہ کرلیا۔ یہ مہم اُسے بہت مہنگی پڑی۔ اُس کارروائی کے دوران میں اُس کی افواج کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔ تقریباً 150 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔ اس پر 20,000 روپے سے زیادہ خرچ آیا اور تقریباً ایک لاکھ کارتوس بھی استعمال ہوئے۔ جب کہ معتبر ذرائع کے مطابق سواتیوں کا جانی نقصان تقریباً 500 ہلاک و زخمی افراد پر مشتمل تھا۔ بہت سے لوگ اُن بھاری پتھروں اور لکڑی کے تنوں کے نیچے آکر زخمی اور ہلاک ہوئے جوکہ اُن کے اوپر گرائے گئے۔
چوں کہ اس کوہستانی علاقہ میں بہت نقصان اٹھانا پڑا، اس لیے مزید توسیع بہت احتیاط اور سفارتی ذرائع سے کی گئی۔ عبدالودود نے کوہستان کے اہم اور معزز ترین افراد کو مہمانوں کی حیثیت سے اپنے ہاں بلانا شروع کیا۔ اُن کا اچھا استقبال کیا جاتا تھا اور قیمتی تحائف و لباس سے اُن کو نوازا جاتا تھا۔ اس دریا دلی سے کچھ لوگوں کی حمایت حاصل کرلی گئی، لیکن بہت سے ایسے خدشات میں مبتلا تھے کہ کہیں الحاق سے اُن کی عزت و وقار میں کمی نہ آجائے۔ ان لوگوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کی ضمانت چاہتے ہوئے الحاق کی درخواست کی۔ باچا صاحب نے وہاں موجود اپنے کوہستانی دوستوں سے اس کی تصدیق کروائی اور پھر ایک مضبوط فوج بھیج کر دبیر، رانولیا اور بنکوٹ پر قبضہ کر لیا گیا۔
لیکن کوہستانیوں کا اصل مرکز، دارالحکومت اور سب سے مضبوط قصبہ پٹن ابھی تک فتح نہیں کیا جاسکا تھا اور جب تک یہ نہ ہوجاتا، تو کوہستان پر قبضہ کی ضمانت نہیں دی جاسکتی تھی۔ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن عبدالودود نے عزم کرلیا تھا کہ ایسا کرنا ضروری ہے۔ اُس نے پٹن کے معدودے چند دوستوں کے ہم راہ ایک زبردست فوج روانہ کی۔ یہ فوج اتنی تیزی سے منزل کی طرف بڑھی کہ اُس نے ڈیڑھ سو میل کا فاصلہ انتہائی دشوار گزار پہاڑی راستوں سے چلتے ہوئے صرف تین دنوں میں پیدل طے کیا۔ ایک بھرپور حملہ کرکے اسے جلد ہی فتح کر لیا گیا۔ پٹن کی فتح کوہستانیوں کی طاقت کا اختتام ثابت ہوئی، اور اس کے زیر نگیں آتے ہی دیگر علاقے رضاکارانہ طور پر مدغم ہونے لگے۔ پہلے سیو شامل ہوا، پھر کندیا جس پر 1939ء میں قبضہ ہوا۔ اس طرح اباسین کے دائیں کنارے والا کوہستان ریاستِ سوات کا حصہ بن گیا۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 110 تا 111 سے انتخاب)