تاریخ شاہد ہے کہ جہاں ہتھیار اپنی طاقت کے اظہار کا اہم ذریعہ ہیں، وہاں بہترین سفارت کاری کے حامل ممالک پوری دنیا میں اپنا سکہ منواتے ہیں۔ اور ایسا آپ سعودی عرب یمن تنازعے میں دیکھیے کہ کیسے سعودی عرب نے نہ صرف خلیجی ممالک بلکہ پوری دنیا کو قائل کر لیا کہ یمن تنازعے میں وہ حق پہ ہیں اور یہ خالصتاً فقہی معاملہ ہے۔ دوسری جانب ترکی نے نہ تو کوئی دھمکی دی، نہ گولی یا گولے کا سہارا لیا اور پوری دنیا میں مضبوط سفارت کاری کے ساتھ سعودی ولی عہد کو مشکل میں ڈالے ہوئے ہے۔ چین اور امریکہ کی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ چین دنیا کو اپنے قابو میں کرتا جا رہا ہے لیکن حیران کن طور پر چین نے گولی کے بجائے مسکراہٹ کو اپنا ذریعہ بنایا ہے آگے بڑھنے کا۔ اسی طرح کئی مثالیں موجود ہیں کہ دشمنوں کے غلط فیصلے ممالک اپنے حق میں بہترسفارت کاری کے ذریعے استعمال کرتے ہیں، لیکن ہم کیوں کہ اس حوالے سے ابھی نہ تو دور کی سوچ رکھتے ہیں اور نہ سفارت کاری ہی کے محاذ پہ کوئی کارہائے نمایاں سر انجام دے سکے ہیں اب تک، لہٰذا اس میدان میں زیادہ کوشش کرنا بھی ہم بوجھ ہی سمجھتے ہیں۔
نئی حکومت بن گئی، نیا پاکستان بھی بن گیا، لیکن جو معاملات پرانے پاکستان سے ہمیں وراثت میں ملے تھے، ان سے نہ تو دامن چھڑایا جا سکتا ہے نہ ان سے غفلت یا پہلوتہی ہی برتی جا سکتی ہے۔ کرتارپورہ راہداری کا افتتاح بھی ہوگیا اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبلِ قریب میں یہاں سے سکھ زائرین کی آمدو رفت بھی شروع ہو جائے، لیکن اب تھوڑا آگے بڑھئے۔ پہلے بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ جی نے بیان داغا اور تقریب میں شرکت کی دعوت رد کرتے ہوئے دہشت گردی کا وہی گھسا پٹا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ پھر اس کے بعد سشما سوراج نے سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ ان کا مزید یہ کہنا کہ مذاکرات اور دہشت گردی دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ بھارتی مؤقف کے واضح ہونے کی دلیل ہے کہ وہ پاکستان کو نہ تو سکھ کا سانس لینے دیں گے اور نہ اپنے ہاں آئندہ ہونے والے انتخابات میں پاکستان مخالفت کارڈ سے دستبردار ہونے کا ان کا کوئی ارادہ ہی ہے۔ بلکہ آنے والے دنوں میں پاکستان دشمنی میں تھوڑی تیزی ان کے ہاں اس لیے بھی آ سکتی ہے کہ وہاں انتخابات کی گہما گہمی جاری ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ الزامات کا سلسلہ بھی طویل ہوتاجائے۔ جھوٹ کا اندازہ لگائیے کہ خط لکھا کہ یہ وزرا آ رہے ہیں اور پھر کمال ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ وزرا تو ذاتی حیثیت میں گئے ہیں۔ ہمسایہ ملک کی طرف سے کرتارپورہ راہداری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہی لگا لیجیے کہ نہ توبھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے آنا گوارا کیا نہ ہی ان کی وزیرِ خارجہ صاحبہ نے اور ہم نے اس کو نہ جانے اتنا ہواکیوں بنا لیا ہے کہ پوری قیادت وہاں براجمان اور ساتھ گھنٹوں کے حساب سے ہمارا میڈیا نہ جانے اس میں سے کیا نکالتا رہا کہ پرائم ٹائم کے ایک گھنٹے کے خبرنامے میں سے 59 منٹ ہم کرتارپورے کی خوشیاں ہی مناتے رہے۔ یہ بیل منڈھے چڑھ جائے، تو یقینا ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ضرور ہوگا لیکن ہم نہ جانے اتنی جلدی ہمالیہ جتنی اُمیدیں کیوں باندھ لیتے ہیں۔ اور تو اور ہم ان کے ایک قدم کے بجائے دو قدم بڑھانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ جنگ نہ تو کسی مسئلے کا حل ہے، نہ اب وہ رایتی جنگ لڑنا ممکن ہی رہا ہے۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں، لیکن ہوش مندی کا اظہار صرف ایک جانب سے ہی کیوں؟ ہم ہی کیوں اتاولے ہوئے پھرتے ہیں۔ وہاں تو حال یہ کہ سکھ راہنما کو ہمارے آرمی چیف سے ہاتھ ملاتے دیکھ کے بھی ان سے رہا نہ گیا اور صحافت کے تمام معیارات کی دھجیاں دیکھئے کس طرح سے اُڑائی گئیں کہ اُس راہنما کو الیکٹرانک میڈیا پہ لائیو کال پہ لیتے ہوئے بھی اس کے نام کے ساتھ ایجنٹ کا لاحقہ لگایا۔ تالی کیا ایک ہاتھ سے بجتی ہے؟ اگر نہیں، تو پھر ہم عالمی دنیا میں اپنے تمام سفارت کاروں کو متحرک کیوں نہیں کرتے؟ ہم اپنی خارجہ پالیسی کا رُخ ایسے متعین کیوں نہیں کر پا رہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ ملاحظہ ہو ہم دوستی کرنا چاہ رہے ہیں، راستہ کھول رہے ہیں اور وہاں سے وہی ڈھاک کے تین پات کا معاملہ برقرار ہے۔ ہم بھارت کو اپنی مضبوط خارجہ پالیسی اور پوری دنیا میں پھیلے اپنے سفارت کاروں کے ذریعے تنہا کرنے کی مہم کا آغاز کیوں نہیں کرتے؟ ہم کچھ عرصہ قبل تک جس کلبھوشن کے ذکر نہ ہونے کا واویلا کرتے تھے، کیوں آج اس معاملے کو پوری دنیا میں بھارت کے خلاف استعمال نہیں کر پا رہے۔
دانشوری کے تمام گُر، لکھنے کے تمام رموز، گفتگو کا ہر لہجہ، حقائق کے تمام اعداد و شمار ایک طرف لیکن ایک عام پاکستانی کا دل پڑھئے جو چاہتا ہے کہ ہم، کوئی شک نہیں کہ ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، لیکن اُن کے ایک قدم پہ دو قدم کیوں آگے بڑھائیں؟ جب وہ معاملات کو عام روش سے آگے نہیں دیکھ رہے، تو ہم ان ہی معاملات کو کیوں بڑھا چڑھا کے پیش کرتے ہیں؟ وہ میں ’’نہ مانوں‘‘ کی عملی تفسیر اور ہم ’’جو تو کہے‘‘ کا نمونہ کیوں خود کو ظاہر کرتے ہیں؟
صاحب، اتنا کیجیے، جتنا اگلا ہضم کر سکتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ توجہ تو دو بھائیوں تک میں چڑچڑاپن بسا اوقات پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
پوری دنیا میں موجود سفارت کاروں اور دفترخارجہ کے تمام دیگر سفارتی ذرائع کو اس موقع پر نہایت سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کو بتانا ہوگا کہ ہماری پوری قیادت نہ صرف امن کی خواہش مند ہے بلکہ عمل سے ثابت بھی کر رہی ہے کہ ہم خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کے بجائے امن چاہتے ہیں۔ کیوں کہ امن ہی پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ یہ تو ہمارے ہمسائے کی عیارانہ پالیسی ہے کہ وہ ہمارے مثبت قدم کو تنقیدی نظر سے ہی دیکھتا ہے۔ اور دنیا کو جاننا چاہیے کہ کون ہے جو امن چاہتا ہے اور کون ہے جو امن کی جانب بڑھتے قدموں پہ بھی شک کی نگاہ ڈالتا ہے۔ سکھ زائرین اس پورے معاملے میں خوش ہیں اور ہونے بھی چاہئیں۔ وہ ہمارے گن گا رہے ہیں، یہ بھی درست، لیکن تھوڑا معاملات کو اس روش سے ہٹ کے دیکھئے اور یہ معاملہ اس گرم جوشی سے پار لگائیے جس کا مظاہرہ ہمارا ہمسایہ کرے۔ پیمانۂ امن ہم نے لبا لب بھر دیا، اب ذمہ داری ان کی ہے کہ اسے نفاست سے تھام کے چھلکنے سے روکتے ہیں یا اسے روایتی ہٹ دھرمی سے تھامتے ہوئے کوتاہی کرتے ہیں۔ گیند اب ان کے کورٹ میں ہے، تو ان کے کورٹ میں رہنے دیجئے۔ اور تمام معاملات میں ضرورت سے زیادہ خوشی اور ضرورت سے زیادہ امیدوں سے ذرا بچ کے رہئے۔
کرتارپورہ کو امن کی جانب جانے والا صرف ایک راستہ سمجھیں۔ ایسے بے صبرے نہ ہوں کہ اسے ہی آپ منزل سمجھ بیٹھیں۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔