اسلام میں آثارِ قدیمہ کی اہمیت

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ زمین نے اَب تک وہ مرکب تیار کیوں نہیں کیا جو اِن کھنڈرات کو اپنی مٹی میں ایسا ملادے کہ نام ونشان تک مٹ جائے؟
اس سے بھی حیران کن امر یہ ہے کہ وہ عہد رفتہ کی باقیات کو اپنے سینے میں محفوظ رکھ لیتے ہیں۔ اسے سینچتی ہیں۔ دنیا کی نظروں سے چھپانے کے لیے اس پر مٹی ڈالتے جاتے ہیں اور پھر کبھی کبھی ان کو اپنے خوابیدہ مسکنوں سے اٹھاکر دنیا کی توجہ کا مستحق بناتے ہیں، تاہم نشانات کبھی مٹ نہیں پاتے۔ دنیا ان کو ڈھونڈ نکال لیتی ہے اور پھر معلوم ہو جاتا ہے کہ ہزاروں سال کا مدفن اپنے کشکول میں ہزار داستان رکھتا ہے۔ وہ گزری ہوئی اقوام کی کہانیاں سنانے لگتا ہے اور ہم ہمہ تن گوش ہوکر اسے سننے میں محو ہوجاتے ہیں۔
ذرا سوچیے کہ انبیا علیہم السلام کو معجزات کیوں دیے گئے؟ پھر رہتی دنیا تک ان کی داستان کیوں محفوظ رکھی گئی؟ شاید اس واسطے کہ لوگ اگر دیکھ لیں، تو عبرت حاصل ہو۔
یاد رکھیے! تہذیبِ اخلاق، فرد اور خاندان کی اصلاح اور ایک فلاحی ریاست کا قیام اس دنیا کو امن وآشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ بنیادی چیز یعنی ’’فرد کی اصلاح‘‘ مختلف طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔
ڈر یا خوف ایک ایسی چیز ہے جس میں فرد کی اصلاح کو بڑا عمل دخل ہے۔ کسی شخص کو اگر کسی برائی کا انجام سامنے لاکر رکھ دیا جائے، تو عین ممکن ہے کہ وہ برے ارادے سے باز آجائے۔ اسی طرح اگر کسی کو نیک کام پر آمادہ کرنے کے لیے نیکی کا انجام سامنے لاکر رکھ دیا جائے، تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اس کو کر گزرے۔
اللہ تعالیٰ کے آفاقی قانون میں ترغیب و ترہیب دونوں شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ قرآن اٹھا کر دیکھا جائے، تو جہاں ترغیب ہے وہاں ترہیب ہے۔ جہاں ’’ڈراوا‘‘ ہے وہاں امید کا دیا بھی روشن ہے۔ جہاں جنت کی بات ہوتی ہے وہاں دوزخ کا عذاب بھی سامنے ہے۔ اس واسطے کہ انسان اپنے لیے وہی اختیار کرے جس کی وہ خواہش رکھتا ہے۔ کیا ہی خوبصورت اسلوب ہے: ’’اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَھْوٌ وَزِینَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُھُ ثُمَّ یَھِیجُ فَتَرَاھُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللَّھِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ۔‘‘
(ترجمہ) خوب سمجھ لو کہ دنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا، ظاہری سجاوٹ کا، تمہارے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا، اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش جس سے اُگنے والی چیزیں کسانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں، پھر وہ اپنا زور دکھاتی ہیں، پھر تم اس کو دیکھتے ہو کہ زرد پڑ گئی ہیں، پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہیں۔ اور آخرت میں ( ایک تو) سخت عذاب ہے، اور (دوسرے) اللہ کی طرف سے بخشش ہے ، اورخوشنودی ……! اور دنیا والی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے! (الحدید، آیت20)

اسلام کے محاسن میں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ اسلام دیگر مذاہب اور انسانوں کے جذبات کا خصوصی خیال رکھتا ہے۔

اب آتے ہیں موضوع کی طرف۔ انسان کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ وہ کھڑی دیواروں، ایستادہ عمارتوں اور بچ جانے والے آثار کو دیکھ کر اپنے دل میں ہلچل محسوس کرتا ہے۔ وہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان باقیات میں راز کیا ہیں؟ جو اتنے سالوں کے گزرنے کے باوجود ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں یا پھر ہمیں یہ باور کراتی ہیں کہ ایک دن تمہیں بھی اس طرح کے حادثے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ نشانی ایک سنگ میل ہوتی ہے جس پر چل کر انسان کو اپنی منزل کے فاصلے اور درستی کا علم ہوتا ہے۔ نشانی صرف منزل کا فاصلہ معلوم کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ سفر درست سمت میں ہورہا ہے یا نہیں؟
اللہ تعالیٰ نے انسانی تاریخ کی چیدہ چیدہ دستاویزات زمین کے سینے میں محفوظ کر دیے ہیں۔ ان اقوام کے حالاتِ زندگی جو کسی تاریخ کے باب میں مذکور تو نہ ہوں گے، لیکن ان کی باقیات سے ان کی تاریخ کا علم ہوتا ہے۔ ان نشانیوں کو اللہ تعالیٰ نے مشاہداتی جامہ پہنایا۔ ان میں اپنے نیک بندوں کے آثار بھی رکھے اور کچھ باغی اقوام کی باقیات بھی۔ تاکہ دنیا کو اپنی منزل کا پتا ہو۔ وہ نشانات کو دیکھ کر منزل کا فاصلہ بھی معلوم کرے اور سفر کی درستی کو بھی ملحوظِ نظر رکھے۔
مجھے موجودہ دور میں اسلام کے محاسن میں یہ بات بڑی دلچسپ لگتی ہے کہ اسلام دیگر مذاہب اور انسانوں کے جذبات کا خصوصی خیال رکھتا ہے۔ اسلام ان مذاہب کا رد بھی کرتا ہے، یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ سب باطل پر ہیں، یہ بھی کہتا ہے کہ اسلام سے باہر کے لوگ کبھی اللہ تعالیٰ کی دائمی خوشنودی کو نہیں پاسکتے، لیکن ساتھ ساتھ ان مذاہب اور اقوام کی حیثیت کو تسلیم بھی کرتا ہے۔ ان کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی معاملات کے احکام بھی بتلاتا ہے۔ اور سونے پہ سہاگا یہ کہ ان کی مذہبی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے جذبات، مذہبی مقامات اور رسوم کا احترام بھی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مہربان ذات اپنے ساتھ شریک ٹھہرائے جانے والے بتوں، اجسام اور طرح طرح کے معبودوں کے بارے میں بھی یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ انہیں گالی گلوچ مت کرو۔ کہیں یہ گالی گلوچ دعوت کے آفاقی مقصد کو بھلاکر آپس میں ایک دوسرے کے خداؤں پر طعن وتشنیع کا سبب نہ بن جائے!

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔