ہیرا منڈی کا اولین نام شاہی محلہ تھا۔ اسے بعد میں ہیرا منڈی، بازارِ حسن اور ریڈ لائٹ سٹریٹ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ لاہور کے ایک نشریاتی ادارے "نیوز الرٹ” کے اینکر "نبیل رشید” اپنی ایک ویڈیو رپورٹ میں ہیرا منڈی کے حوالہ سے کہتے ہیں: "ہیرا منڈی کا قیام پندرہویں صدی میں مغل دورِ حکومت میں عمل میں آیا۔ یہاں مغل بادشاہ اپنے شہزادوں کو ثقافت، تہذیب، اٹھک بیٹھک، یہاں تک کہ کھانا کھانے کے آداب سکھانے بھیجا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ رعایا موسیقی سے محظوظ ہونے یہاں کا رُخ کرتی تھی۔ پھر جب اٹھارویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت آئی، تو مہاراجہ کے منھ بولے بیٹے ہیرا سنگھ نے شاہی محلہ میں ایک حویلی تعمیر کی۔ یوں ہیرا سنگھ کی مناسبت سے شاہی محلہ کا نام "ہیرا منڈی” پڑ گیا۔”
وکی پیڈیا پر اس حوالہ سے کچھ یوں درج ہے: "بعض روایات کے مطابق یہاں سکھ حکومت کے ہندو ڈوگرہ وزیر اعظم دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ کی حویلی تھی۔ ہیرا سنگھ، مہاراجا رنجیت کا منھ بولا بیٹا بنا ہوا تھا۔ اپنے باپ دھیان سنگھ کی موت کے بعد وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوا۔ اس کی حویلی اور نام کی مناسبت سے لاہور شہر کا یہ حصہ "ہیرا منڈی” کہلاتا ہے۔”
"نیوز الرٹ” کے اینکر "نبیل رشید” کے بقول: "برطانوی راج میں فوجیوں کی تفریح کے لیے انار کلی میں کوٹھے تعمیر کیے گئے، جنہیں بعد میں ہیرا منڈی منتقل کیا گیا۔ یوں موسیقی کی ثقافت، عصمت فروشی میں تبدیل ہوگئی۔”
جب کہ وکی پیڈیا پر اس حوالہ سے درج ہے کہ "برطانوی راج کے دوران میں برطانوی فوجیوں کی تفریح کے لیے پرانی انار کلی بازار میں کوٹھے تیار کیے گئے۔ اس کے بعد انہیں لوہاری دروازہ اور پھر ٹکسالی دروازہ پر منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازیں انہیں موجودہ ہیرا منڈی کے مقام پر منتقل کر دیا گیا۔”
نبیل رشید، ہیرا منڈی کے حوالہ سے آگے اپنی رپورٹ میں کہتے ہیں: "قیامِ پاکستان کے بعد ہیرا منڈی کی "ثقافت” کو وقتاً فوقتاً بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہاں ایک آپریشن بھی کیا گیا، جس سے وقتی طور پر عصمت فروشی کا دھندا ماند پڑ گیا، مگر ……! موجودہ دور میں ہیرا منڈی میں مختلف بازاروں کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ ہیرا منڈی کا تیار شدہ کُھسّا نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی پسند کیا جاتا ہے۔ ہیرا منڈی میں ہر قسم کے آلاتِ موسیقی بھی تیار ہوتے ہیں، جن کا معیار ملک کے دیگر حصوں سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے۔ یہ بھی باہر کے ملکوں میں بھیجے جاتے ہیں۔”