عربی زبان میں زکوٰۃ کے معنی ہیں کسی بھی چیز کو گندگی سے، آلائشوں سے اور نجاست سے پاک کرنا۔ زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کے مال کو پاک کردیتی ہے۔ جس مال سے زکوٰۃ نہ دی جائے، وہ مال گندا اور ناپاک ہے۔
قارئین کرام! ہر مسلمان جانتا ہے کہ زکوٰۃ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ جس طرح نماز فرض ہے، اسی طرح زکوٰۃ بھی فرض ہے۔ نماز اگر بدنی عبادت ہے جس کو انسان اپنے جسم کے ذریعے ادا کرتا ہے، تو زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے جس کو انسان اپنے مال سے ادا کرتا ہے۔
زکوٰۃ کے بے شمار فائدے ہیں۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ جو بندہ زکوٰۃ ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو مال کی محبت سے محفوظ رکھتا ہے۔ چناں چہ جس کے دل میں مال کی محبت ہوگی، وہ کبھی زکوٰۃ نہیں دے گا۔ کیوں کہ بخل اور مال کی محبت انسان کی بدترین کمزوریاں ہیں اور اس کا علاج اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے ذریعے فرمایا ہے۔ زکوٰۃ کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے بے شمار غریبوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ مفتیِ اعظم مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب ’’اصلاحی خطبات‘‘ میں یہ بات ذکر کی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ اندازہ لگایا کہ اگر پاکستان کے تمام لوگ ٹھیک ٹھیک زکوٰۃ نکالیں اور اس زکوٰۃ کو صحیح مصرف پر خرچ کریں، تو یقینا اس پاکستان سے چند سالوں میں غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ زکوٰۃ جتنا بڑا فریضہ ہے اور جتنے بے شمار اس کے فائدے ہیں۔ اتنی ہی اس کی طرف سے ہمارے معاشرے میں غفلت برتی جارہی ہے۔ چناں چہ بہت سے لوگ تو زکوٰۃ نکالتے ہی نہیں اور جو بہت سے لوگ زکوٰۃ نکالتے ہیں، تو وہ ٹھیک ٹھیک نہیں نکالتے بلکہ اندازے سے حساب کتاب کے بغیر نکال دیتے ہیں اور پھر وہ اس کو صحیح مسرف پر خرچ کرنے کا اہتمام بھی نہیں کرتے۔ زکوٰۃ کا مصرف براہِ راست غریب لوگ ہیں۔ اس لیے شریعت نے زکوٰۃ کو بڑے بڑے رفاہی کاموں پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ ہم دینی کاموں کے لیے پیسے دیتے ہیں۔ کبھی کسی کام کے لیے اور کبھی کسی کام کے لیے۔ لہٰذا ہماری زکوٰۃ خود بہ خود نکل رہی ہے۔ یہ خیال بھی غلط ہے۔ کیوں کہ دینی کاموں میں پیسے خرچ کرنا الگ کام ہے، اس کا ثواب آپ کو ضرور ملے گا، لیکن مال سے زکوٰۃ ادا کرنا الگ فریضہ ہے۔ بعض لوگ وہ ہیں جن کو پتا ہی نہیں کہ زکوٰۃ کس وقت فرض ہوتی ہے؟ کس شخص پر فرض ہوتی ہے؟ اس کے نتیجے میں وہ لوگ زندگی بھر زکوٰۃ کی ادائیگی سے محروم رہتے ہیں۔
قارئین کرام! شریعت نے زکوٰۃ کا ایک نصاب مقرر کیا ہے۔ وہ نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔ بازار میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت معلوم کرلی جائے۔ اگر کسی کے پاس مذکورہ نصاب ہو یا اس کی قیمت کے برابر نقد پیسے ہوں یا مال، تجارت کی شکل میں ہو اور تجارتی مال کی قیمت مذکورہ نصاب کو پہنچتی ہو، تو اس شخص پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے۔ بہ شرط یہ کہ یہ روپے اس کی ضروریات اصلیہ سے زائد ہوں، یعنی روزمرہ کی ضروریات اور اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کی ضرورت سے زائد ہوں۔ البتہ اگر کسی شخص پر قرض ہے، تو جتنا قرض ہے، وہ اس زکوٰۃ کے نصاب سے منہا کرلیا جائے گا۔ مثلاً یہ دیکھا جائے کہ یہ رقم جو ہمارے پاس ہے، اگر اس کو قرض اداکرنے میں صرف کردیا جائے، تو باقی کتنی رقم بچے گی؟ اگر باقی رقم مذکورہ چاندی کے نصاب کے برابر ہو، تو اس سے زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے اور اگر باقی رقم مذکورہ نصاب کے برابر نہ ہو، تو پھر لازم نہیں۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس مذکورہ نصاب کے برابر نقد پیسے ہیں، لیکن ہم نے یہ پیسے دوسرے منصوبوں کے لیے رکھے ہیں۔ مثلاً بیٹا بیٹی کی شادی کے لیے یا گاڑی خریدنے کے لیے یا مکان بنانے کے لیے یا کسی دوسرے ضرورت کے لیے اور اس سے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ یہ خیال بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ اس سے زندگی کی روزمرہ کھانے پینے کی ضرورت مراد ہے، یعنی اگر وہ ان روپوں کو خرچ کر دے گا، تو اس کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اپنے بیوی بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا، لیکن جو رقم دوسرے منصوبوں کے لیے رکھی ہے، تو وہ ضرورت سے زائد ہے۔ اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو بہت معمولی سی یعنی ڈھائی فیصد فرض فرمائی ہے، یعنی ایک لاکھ روپے میں پچیس سو روپے فرض کیے ہیں، جو بہت معمولی مقدار ہے اور پھر اللہ نے یہ نظام ایسا بنایا ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے زکوٰۃ ادا کرتا ہے، تو اس کے نتیجے میں وہ مفلس نہیں ہوتا بلکہ اس کے ادا کرنے میں اس کے مال میں برکت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اور زیادہ عطا فرماتے ہیں۔
حدیث شریف میں حضورؐ نے ایک خوبصورت جملہ ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی صدقہ اور کوئی زکوٰۃ کسی مال میں کمی نہیں کرتی۔ آج تک کسی شخص کا کام زکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے نہیں رُکا۔ آج تک کوئی شخص زکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے مفلس نہیں ہوا، جو لوگ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ہر سال ان کے مال میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ آج ہماری دنیا مادہ پرستی کی دنیا ہے۔ اس مادہ پرستی کی دنیا میں ہر کام کا فیصلہ گنتی سے کیا جاتا ہے۔ ہر وقت انسان بھی گنتا رہتا ہے کہ میرے پاس کتنے پیسے ہیں؟ کتنے پیسے آئے اور کتنے پیسے چلے گئے؟ کتنی پیسے بڑھے اور کتنی گھٹ گئے اور اگر زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے گنتی بڑھ گئی، تو اس بڑھے ہوئے مال کے نتیجے میں کتنی بے برکتی آگئی۔ کتنے مسائل کھڑے ہوگئے اور کتنی مصیبتوں کا سامنا ہوگیا۔
ایک حدیث میں حضورؐ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ مقرر ہے، جو مسلسل یہ دعا کرتا رہتا ہے کہ اے اللہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والا ہو اور صدقہ خیرات کرنے والا ہو، اس کو اس کے مال کا دنیا ہی میں بدلہ عطا فرمائے۔ اور دوسرا فرشتہ بھی مقرر ہے، وہ یہ بد دعائی کرتا ہے کہ اے اللہ جو شخص آپ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا، تو اس کا مال ہلاک کرے۔
قارئین کرام! زکوٰۃ زیور پر بھی فرض ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس نقد رقم نہیں ہے، لیکن اس کے پاس زیور کی شکل میں سونا چاندی ہے، تو اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ اگر صرف سونا ہے اور ساڑھے سات تولے ہے، تو زکوٰۃ لازم ہے اور اگر صرف چاندی ہے، تو ساڑھے باون تولہ چاندی ہونا ضروری ہے۔ اور اگر سونا یا چاندی کے ساتھ نقد پیسے بھی ہیں، تو اس کی کل قیمت لگا کر اس سے چاندی کا نصاب پورا کرے۔ اکثر و بیشتر گھروں میں اتنا زیور ہوتا ہے، جو نصابِ زکوٰۃ کی مقدار کو پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا جس کی ملکیت میں وہ زیور ہے، چاہے وہ شوہر ہو یا بیوی ہو، یا بیٹا ہو یا بیٹی اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
آج کل ملکیت کا معاملہ بھی صاف نہیں ہوتا اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ زیور کس کی ملکیت ہے؟ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہر بات صاف واضح ہونی چاہیے۔ یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ یہ چیز کس کی ملکیت ہے؟ جس کی ملکیت ہو، اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
قارئین، اب تک کے لیے اتنا ہی، اگر زندگی باقی رہی، تو مزید تفصیل اگلی نشست میں عرض کریں گے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔