اٹھنی، چونی، دس اور پانچ کے سکے کہاں گئے؟

مرکزی حکومت کے ادارے پورے ملک کے لیے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے اچھے یا برے معیار کے اثرات پورے ملک و قوم پر ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے مرکزی سرکار سے متعلق یہ معاملہ دیکھیے کہ پاکستانی کرنسی عملی طور پر ایک روپیہ اور اس سے اوپر یعنی پانچ ہزار کے نوٹ کی شکل میں موجود ہے۔ ایک روپیہ سے کم کے سکے عملی طور پر غائب ہیں۔ ہمارے بچے اٹھنی، چونی، دس، پانچ اور ایک پیسہ کے سکے جانتے ہی نہیں اور نہ یہ عملاً گردش میں ہیں۔ عملی طور پر موجود ہی نہ ہوں، تو پھر حکومت کی پالیسیوں میں ان کا شامل کرنا یا تو بہت نالائقی کا کام ہے اور یا بہت قابلیت کا، جس کے ہم حامل نہیں۔ ابھی ابھی تیل کی قیمتیں بڑھادی گئی ہیں۔ فرض کریں ایک گاڑی والے کو چھے سو روپیہ اور چالیس پیسوں کا تیل فروخت کیا جاتا ہے، تو یا تو پمپ والا اپنے چالیس پیسے چھوڑے گا اور خریدار اپنے ساٹھ پیسوں سے محروم ہوگا۔ یہی صورتحال ادویات کی بھی ہے بلکہ یہاں تو سرکار کی ایک مزید غفلت موجود ہے۔ کیوں کہ مبینہ طور پر حکومت نے دس بارہ فی صد ڈسکاؤنٹ مریضوں کو دی ہے لیکن طریقہ وہ اختیار کیا ہے کہ شیر نے خیرات کے گوشت کو کمزور درندوں میں تقسیم کرنے کے لیے بھیڑیوں کے حوالے کیا۔ یہ بھی حکومتی اہلکاروں کی نالائقی یا بڑی کوتاہی کا بین ثبوت ہے۔ اس میں بھی عوام کو بڑا دھوکا سرکار دے رہی ہے۔
رشوت ستانی اور اقربا پروری نے وطنِ عزیز کو نا اہل لوگوں کے حوالے کردیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر قسم کی سرداری کے لیے پوری دنیا صادق، امین اور اہل شخص کو ضروری سمجھتی ہے۔ ہمارا المیہ دیکھیے کہ پارلیمنٹ ان آفاقی خواص کو رد کرتی ہے۔ بڑا بابو کہتا ہے، ’’مجھے کیوں نکالا؟ میرا فیصلہ عوام کریں گے۔‘‘ بڑے بابو کو کون سمجھائے گا کہ گلی گلی میں رونے اور فریاد کرنے سے آپ کی وقعت کم ہوتی ہے۔ آپ اس فطری اصول کو کیوں بھول گئے کہ ہر اقتدار کے بعد زوال ضرور ہوتا ہے۔ انسان کو صبر، سکون اور خاموشی کے ساتھ معاملات پر سوچنا چاہیے کہ وہ کون سے حالات تھے، جنہوں نے آپ کی تنزلی کو پیدا کیا؟ یہ معاملہ گلیوں، بازاروں میں چیخنے پکارنے سے نہیں لیکن خاموش اور با وقار طریقے سے اس پر گہری ریسرچ سے آپ کی سمجھ میں آئے گا۔ کوئی عمل بے وجہ نہیں ہوتا، کچھ تو ہوگا ضرور۔ آپ کو خدانے عوام کی رکھوالی کا لمبا اقتدار دیا۔
صوبہ کے پی کی حکومت نے چند گیدڑوں اور بھیڑ بکریوں کو پکڑ کر پنجروں میں بند کرکے ’’چڑیاگھر‘‘ بنایا۔ اربوں روپے اُڑ گئے۔ سنا ہے کہ جس زمین پر چڑیا کا گھر بنایا گیا ہے، وہاں درخت تھے اور حکومتی اہلکاروں نے پہلے اُن کا صفایا کروانا بہتر سمجھا اور یہ نہ بھانپ سکے کہ حیوانات کو بھی صاف آکسیجن اور سائے کی ضرورت ہوتی اور چڑیا تو درختوں کے بغیر شاید ہی زندہ رہ سکے۔ اس ناموزوں جگہ پر چڑیا گھر بنانے والوں کو بھی اگر چند پنجروں میں بند کرکے عوام کو اُن کا دیدار کرایا جائے، تو برا نہ ہوگا۔
تنہا خاتون مسافر کو دو سیٹیں خریدنی پڑتی ہیں، ورنہ گاڑی والے اُس کے ساتھ کسی کو بٹھانے پر اصرار کرتے ہیں۔ اگر حکومت کرایہ پر چلنے والی گاڑیوں میں ایک عدد سنگل سیٹ کی تعمیر کو لازمی قرار دے، تو بند ہونٹوں کی دعائیں اس کو نصیب ہوں گی۔

تنہا خاتون مسافر کو دو سیٹیں خریدنی پڑتی ہیں، ورنہ گاڑی والے اُس کے ساتھ کسی کو بٹھانے پر اصرار کرتے ہیں۔

نہایت ہی غیر موزوں سفری سہولیات کی وجہ سے ملازمین دفاتر کو آتے جاتے وقت ذلیل و خوار ہوجاتے ہیں۔ وہ اس روزانہ کے سفر کے لیے کرایہ بھی دیتے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوگا کہ انہی پرائیویٹ بسوں کو ایک ڈسپلن میں لاکر ملازمین کے لیے سہولیات پیدا کی جائیں۔ اس سے ان کی قوتِ کار میں اضافہ ہوگا۔ اگر ملازمین کے لیے سنگل بیڈ رہائش گاہوں کا منصوبہ بنا کر ان کو دفاتر سے کم فاصلوں پر تعمیر کرواکر انہیں مناسب کرایوں پر مہیا کروایا جائے، تو یہ سونے پرسہاگے والی بات ہوگی۔ فی الوقت کئی اور مسائل کے ساتھ یہ دو بڑے مسائل ملازمین کے سکون اور قوتِ کار کو متاثر کرتے ہیں۔ اس طرح بڑے ہسپتالوں کے قریب سستے سرائے بنائے جائیں، تو بڑی نیکی ہوگی۔
نجی شعبے میں اومنی بسوں کی سروس کو اگر منظم اور باقاعدہ بنایا جائے، تو بے شمار لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ ذاتی گاڑی خرید کر استعمال کا رجحان کم ہوجائے گا اور ملک کو فوائد ہوں گے۔ اس طرح بچوں کو سکولز لانے لے جانے والی گاڑیوں کی سرکاری نگرانی اور رہنمائی ضروری ہے۔ فی الحال تواکثر بچوں پرظلم ہوتا ہے۔ بچوں کے بستوں کا وزن اور اُن میں دُکانداروں کے فوائد کی کتب وغیرہ میں کمی ضروری ہے۔ اس وقت بچے کے اپنے وزن سے بستے کاوزن زیادہ ہوتا ہے۔ پھران کو بسوں کے ساتھ لٹک کر جانا پڑتا ہے۔ سکولوں کے اندر بچوں کا فرنیچر بہت ہی قابل توجہ ہے۔ بھاری بھرکم بستے کے لیے مناسب ڈیسک نہیں ہوتے اور بچے بہت مشکل میں ہوتے ہیں۔ اس طرح اُن کے لیے سرکار کی طرف سے عمدہ ٹائلٹ اور صاف پانی کی فراہمی کے لیے بھی مسلسل توجہ، نگرانی اور رہنمائی چاہیے۔ سارے کام موجودہ عملے اور بجٹ میں ہوسکتے ہیں۔ صرف سرداری کے معیار کا مسئلہ ہے۔

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔