خواتین افسانہ نگاروں کے موضوعات

خواتین کے افسانوں کے موضوعات میں سماجی و معاشرتی زندگی کی جھلکیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ یہ ٹھوس معاشرتی حقائق اور سماجی تخیل ہیں جو افسانہ نگار کو اپنی اہمیت کی طرف مرکوز کراتی ہیں۔ ذات پات کی تقسیم اور طبقاتی اونچ نیچ ہماری معاشرت کی جیتی جاگتی تصویریں اور زندہ حقائق ہیں۔
ابتدائی دور کے افسانوں میں معاشرتی رویوں کی ناہمواری کا کینوس قدرے وسیع نظر آتا ہے۔ انسان جو زمانے کی ہوس ناکی کا نشانہ بننے کے لیے آمادہ نہیں، وہ اندر ہی اندر کہاں کہاں مرتا اور ٹوٹتا ہے۔ اپنی عزت اور شرافت کا بھرم رکھنے کے لیے وہ کن کن مرحلوں اور اذیت سے گزرتا ہے۔ خواتین نے اپنے افسانوں میں معاشرے کی ایک انتہائی قبیح صورت دکھائی ہے کہ شرافت کو کوئی قائم رکھنا بھی چاہے، تو اس کے راستے میں کیا کیا مسائل سر اٹھاتے ہیں۔ معاشرہ ایسے ہی منفی رجحانات کی زد میں ہے۔
خواتین اپنے افسانوں میں خارجی حقائق (متفرق اور متضاد رویے) کو بھی موضوع بناتی ہیں بلکہ ان کے اندر چھپی ہوئی ہماری ذہنیت، ہمارا طرزِ احساس اور متضاد رویے جو اَب ہماری شناخت بن چکے ہیں، بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
ان افسانوں میں انسان محنت مشقت اور حصولِ تعلیم کی مشکلات سے گزرتا ہوا شعور کی منزل تک پہنچتا ہے۔ خواتین نے اپنے افسانوں میں گھر، گھر کے ماحول، تعلق داریوں، انسانی ہمدردی اور خلوص کے جذبوں کو بھی موضوع بنایا ہے۔ گھریلو زندگی کے مسائل، عداوتیں، رقابتیں جن کا تعلق کہیں معاش سے ہے، تو کہیں سماجی بے راہ روی سے۔ ذمہ داریوں اور پریشانیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے گھر، متوسط طبقہ، اس کے مسائل اور مجبوریاں خواتین کے بنیادی موضوعات ہیں۔ یہاں حقیقی زندگی، تلخ تجربات اور ایک عام انسان کی روز مرہ مشکلات اسی فکری رو کے ساتھ بندھی ہوئی نظر آتی ہیں۔
بے یقینی اور بد اعتمادی کے سوتے معاشرتی زندگی میں اس وقت پھوٹتے ہیں جب فرد اپنے چاروں طرف قول و فعل میں تضاد دیکھتا ہے۔ بندشِ زبان اسے وہ کچھ کہنے نہیں دیتی جس کا اظہار وہ کھلم کھلا کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس سسٹم کو بدل نہیں سکتا۔

بے یقینی اور بد اعتمادی کے سوتے معاشرتی زندگی میں اس وقت پھوٹتے ہیں جب فرد اپنے چاروں طرف قول و فعل میں تضاد دیکھتا ہے۔ (Photo: ebay.com)

ایک ایسا کلیہ جو انتشار سے بھرپور معاشرہ میں وہ فرد کے ہاتھوں تھماتا ہے۔ خود آگہی جسے ہم شعورِ ذات بھی کہتے ہیں۔ بے پناہ حوالوں اور تفصیلات کے ساتھ اس کا وجود منسلک ہے۔ یہ اندر کی توانائی ہے جو فرد کو خارج میں متصادم قوتوں کے ساتھ نبردآزما ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ اندر سے انسان کے ہاتھ آنے والی وہ پہچان ہے جو ذات و کائنات کے تمام رشتے انسانی ذہن پر منکشف کرتی ہے۔ اسے ہم انسان کے اندر ازلی اور ابدی سچائیوں کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ یہ وجود کی شناخت اور آگہی کا مرکز و منبع ہے۔ خواتین نے نہ صرف فکری سطح پر بلکہ تجرباتی حوالے سے بھی خود آگہی، ذاتی شناخت اور تسخیرِ وجود کے مرحلے سر کیے ہیں۔
سماج میں ناہمواری اور بے اعتدالی اُس صورت میں جنم لیتی ہے، جب ہر طرح کی صورت حال کو اجتماعی طرزِ احساس قبول کرتا جائے۔ معاشرتی زندگی کو ہی ہمارے متضاد رویے دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ ہم جو کہتے ہیں، وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں، وہ بتانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ جب معاشرے میں یہ طرزِ احساس رواج پا جائے، تو پھر سماج جائے پناہ نہیں رہتا، بلکہ جائے عبرت بن جاتا ہے۔
خواتین کے موضوعات میں اس حوالے سے رویہ طنز و تنقید سے نکل کر احتجاج کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اجتماعی طرزِ احساس ایک اجتماعی بے حسی کے حوالے سے ابھرتا ہے۔ کسی میں کچھ کہنے کی جرأت نہیں۔ صرف مستقبل کے لیے اس تباہی کی گواہیاں اور شہادتیں باقی رہ جاتی ہیں۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔