آئینِ پاکستان آرٹیکل ٹو اے قراردادِ مقاصد میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کل کا ئنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے،وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ لیکن حالیہ سینٹ کے انتخابات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جہاں جمہور نے مملکتِ پاکستان کے حکمرانوں کو مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر جو اختیار سونپا ہے، اس کو کس طرح پائے مال کیا گیا ہے۔ افسوس، کل کلاں یہی لوگ ہمارے لیے قانون بنائیں گے۔ ٹماٹروں اور گاجروں کی طرح بولی لگی، بیوپار ہوا، دھنداہوا۔ سوچنے کی بات ہے کہ کس طرح فرار شدہ فرد کو سینٹ انتخابات میں حصہ لینے دیا گیا، جو قانون کا احترام کرتاہے اورنہ عدالتوں ہی میں پیش ہوتا ہے۔ دوسری طرف حکمران عدالتوں کے فیصلوں کو مذاق مانتے ہیں۔ اداروں کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ کیا وقت کی ضرورت نہیں ہے کہ ایسا قانون بنایا جائے جس میں ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے والا تاحیات نااہل ہوسکے۔ عوام کب تک برداشت کرتے رہیں گے؟ ایک وقت معین ہے، حساب کتاب ہوگا۔ قانون کے بارے میں ہم کیا سوچتے ہیں؟ ہماری مجموعی سوچ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مروجہ قانون جو انگریز کا بنایا ہوا نظام ہے، ہمارے معاشرے میں ایلین نا مانوس دیکھا جاتا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اگر ایک طرف یہ ہماری زبان میں نہیں، تو دوسری طرف قانون بنیادی طور پر ہمارے معروض کے مطابق نہیں ہے۔ انگریز جس کو یہاں پر اپنا نظامِ حکومت چلانا تھا، اس لیے اس کو یہاں قانون کی ضرورت پڑی۔ برصغیر کے علاوہ دولتِ مشترکہ کے تمام ممالک میں یہ نکتہ کارگر ثابت ہوا۔ تقریباً ساری دولتِ مشترکہ ممالک میں ضابطۂ دیوانی اور ضابطۂ فوجداری کے قوانین کے ساتھ ساتھ پینل لاز چھوٹی ترامیم کے ساتھ متعارف کرائے گئے۔ اس کے علاوہ قانون میعاد، ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ، کورٹ فیس سپیسفک ریلیف ایکٹ، معاملۂ زمین، سول کورٹ وغیرہ قوانین بنائے گئے۔ یہ با ت اس حد تک درست ہے کہ یہی قوانین، فیصلہ جات اور بعض ایڈمنسٹریٹو قوانین کے عملی اطلاق کے ذریعے عمل میں آئے، تو دوسری طرف علاقائی جرگوں اور لوگوں کے منشا کو دیکھتے ہوئے قوانین بنائے گئے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مروجہ قوانین کا لوگوں پر زیادہ اثر اس لیے نہیں ہوتا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی اور کا بنا یا ہوانظام ہے۔ اس قانون میں سقم یہ ہے کہ اس میں طبقات کا وجود ناگزیر ہے۔ انصاف کے پیمانے الگ الگ طور پر مقرر کیے گئے ہیں۔ غریب اور مالدار کے لیے الگ الگ قانون ہے۔ حتی کہ عدالتوں میں اس کا امتیاز دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ گنجلک قانون اور مہنگا انصاف ہے۔ قانون کی تشریح کرتے ہوئے قانونی ماہرین کالے کو سفید اورسفید کوکالا بناتے ہیں۔
اب آتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ انگریز کو گئے ہوئے ستر سال کا عرصہ ہوا لیکن انصاف کا ترازو بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ نہ تو انگریز کا لگایا ہوا جمہوریت کا پودا بار آور ثابت ہوا اور نہ قانون کامعاملہ ہی اپنی جگہ پانے میں کامیاب ہوا۔ اس تمام تر صورتحال میں عوام رُلتے رہتے ہیں۔ اشرافیہ کی پانچوں گھی میں ہیں۔ عوام میں نظم وضبط اور بے چینی قانون کی عمل داری سے قائم ہوجاتی ہے۔ فتنہ، فساد اور انتشار کو قانون کے ذریعے سے لگام دیا جاسکتا ہے، لیکن یہاں پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کسی کو قانون کی شد بد نہیں معلوم اور ہمارا ملکی قانون یہ راگ الاپتا ہے کہ ہر ایک شہری قانون سے باخبر ہے۔
جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ قانون انگریزی میں لکھا گیاہے اور دوسری طرف عدالتوں کے فیصلے بھی انگریزی میں لکھے جاتے
ہیں۔ اردو کا یہاں پر استعمال شاذ کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ سپریم کورٹ کا اردو میں فیصلے لکھنے کے حوالے سے فیصلہ بھی آچکا ہے۔ یہاں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانونی الفاظ کے لیے اردو میں کمی اگرچہ نہیں ہے لیکن مستعمل نہ ہونے کی وجہ سے تشریح و توضیح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ حکومت کے پاس قانونی فیصلوں کی تشہیر کے لیے کوئی مؤثر طریقۂ کار موجود نہیں ہے۔ متضاد و متصادم فیصلہ جات اس پر مستزاد ہیں۔ قانون کی شرح کرتے ہوئے اس کی ہیت تبدیل کی جاتی ہے۔البتہ اس کو قانونی حیثیت کم ہی ملتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بچوں کو نصاب میں لازمی طورپر قانون کے اسباق پڑھائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت کی آگاہی بھی انتہائی ضروری ہے، لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے، کوئی اس بارے میں سوچتا ہی نہیں۔ عورتوں اور بچوں کے حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ادراتی اور شعبہ جاتی تعلیم اور صحت تو سب کے سامنے ہے۔ ایسے حالات میں کچھ وکیلوں نے پریکٹس کرنے کا عمل چھوڑ دیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ نئے قوانین کے دھر آنے سے نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس میں ایک طرف وکیلوں اور دوسرے طرف ججوں کو مسائل ہوتے ہیں۔ بعض وکیل سرکار کی نوکری پسند کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کاروباری افراد کورٹ کچہری میں آنے سے کتراتے ہیں، کیوں کہ عدالتوں میں کیسز زیادہ ہوتے ہیں اور ججز کو فیصلہ کرنے کے لیے وقت مشکل سے ملتا ہے۔ اس لیے کاروباری افراد اپنی مشکلات کو لکھ لیتے ہیں اور عدالتوں کے باہر ہی کوئی راضی نامہ وغیرہ تحریر کرکے کورٹ کچہریوں سے دو ربھاگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جب تک ملک میں قانون کی حکمرانی او رطبقاتی تقسیم ختم نہیں ہوگی، تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ قانون کو اس کے سپرٹ کے مطابق نافذ العمل کردیا جائے، تو کسی اور کام کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لازمی طور پر جرائم میں کمی آئے گی۔ آپ بھلے ہی بہترین تعلیم فراہم کریں، لیکن اگر قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی، تو وہی تعلیم سائنسی جہلا پیدا کرتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر سیاسی اور جمہوری حکومت کو استحکام حاصل ہو، تو ادراے مستحکم اور مضبوط ترہوتے ہیں۔ جہاں مذکورہ اداروں میں کم ظرف اور نااہل سیاسی بیوپاری بونے بیٹے ہوں اورجہاں بنیادی نظام میں اصلاح پذیری کا عمل نہیں ہو، تو اس طرح کے نام نہاد سیاسی ادارے اور بڑے بڑے پراجیکٹ بنانے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی۔ وہاں صرف ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ ہی ہوتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عوام شعوری طور پر بالغ ہوگئے ہیں، اس لیے اب لوگ قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور انصاف کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔