آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
تقسیمِ ہند سے پہلے ڈوگرہ راجہ نے مظلوم کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ پھر بدقسمتی سے تقسیمِ ہند کے وقت جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر بزور ناجائز قبضہ کیا، تو ظلم و جبر کا نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ پھر بھی جاری رہا۔ آج اس سلسلے کا اکہترواں سال جا رہا ہے کہ خطۂ کشمیر برہمن سامراج کے پنجۂ استبداد میں تڑپ رہا ہے۔ جنتِ نظیر وادیٔ کشمیر جسے علامہ اقبال نے ’’ایرانِ صغیر‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے، یہاں عرصہ سے سات لاکھ بھارتی افواج ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کررہی ہیں۔ ہر طرف آہ و فغان ہے، چیخ و پکار ہے، غصب ہے، جبر ہے، انسانی حقوق کی پامالی ہے اور نا انصافی ہے جن کا بہادر کشمیری دلیری سے مقابلہ کررہے ہیں۔
پاکستانی قوم ہر سال 5 فروری کو مظلوم کشمیریوں کے ساتھ بطورِ یک جہتی مناتی ہے۔ اس روز عام تعطیل ہوتی ہے۔ مذہبی و سیاسی پارٹیاں اور سماجی تنظیمیں مظلومانِ کشمیر کے حق میں جلسے اور جلوس منعقد کرکے ان سے یکجہتی کا اظہار کرتی ہیں۔ کشمیر میں اکہتر سال سے حصولِ حق یعنی آزادی کی جنگ جاری ہے جس میں اب تک ہزاروں کشمیریوں نے شہادت کا رتبہ پایا ہے۔ بھارتی درندوں نے اب تک ہزاروں خواتین کی بے حرمتی کی ہے۔ معصوم بچوں تک کو تہِ تیغ کیا جارہا ہے لیکن غیور کشمیری نہایت جرأت کے ساتھ ان مظالم کامقابلہ کررہے ہیں۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کی دعویٰ دار تنظیمیں یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش ہیں۔ اسلامی ممالک آج اپنے ہی پسینے میں ڈوبے ہوئے ہیں بلکہ سب کو اپنی ہی پڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا کشمیر کے مسئلے پر بیشتر اسلامی ممالک بھی خاموش ہیں۔ حالاں کہ عالمِ اسلام کے دوسرے سنجیدہ مسائل کی طرح کشمیر بھی امت مسلمہ کاحصہ اور اس کی توجہ کا متقاضی ہے۔ آج بساطِ ارض پر ڈیڑھ ارب مسلمان نا اتفاقی اور ہم آہنگی کے فقدان کا شکار ہیں بلکہ غیروں اور خصوصاً بڑی طاقتوں کی ایما پر ایک دوسرے کو ختم کرنے کے درپے ہیں، ورنہ اگر مسلمانانِ عالم میں اتحاد اور ہم آہنگی ہوتی، تو نہ امریکہ کو انہیں غلام بنانے کی ہمت ہوتی اور نہ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و ستم کرنے کی جرأت کرتا اور نہ امریکہ یکے بعد دیگرے مسلمان ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجاتا۔ مسلمانوں کی اس انتشار کی وجہ سے اسلام دشمن قوتیں اپنا اُلو سیدھا کرتی ہیں۔
آج عالمِ اسلام جس کرب سے گزر رہا ہے، اس کی بڑی وجہ یہی امتِ مسلمہ میں باہمی ہم آہنگی اور اتفاق کا فقدان ہے۔ تاریخی اور مذہبی شواہد سے ثابت ہے کہ یہود و ہنود اور نصاریٰ مسلمانوں کے کبھی دوست نہیں ہوسکتے۔ یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور مربی ہیں۔ انصاف اور امن کے یہ نام نہاد ٹھیکیدار، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منظور کرائے جانے کے باوجود بھی یہ لوگ مسلمانوں کے سنجیدہ اور حل طلب مسائل کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ دنیا کو معلوم ہے کہ نہتے کشمیری مسلمان اکہتر سال سے ہندوؤں کے مشق ستم بنے ہوئے ہیں۔ غور کا مقام ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادیں وہاں کیوں غیر مؤثر ہیں؟ کیا سقوطِ ڈھاکہ، سقوطِ کابل، سقوطِ بغداد اور سقوطِ لیبیا اور حال ہی میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینا مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ یہود و ہنود اور نصاریٰ کا یہ کردار مسلمانانِ عالم کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا واضح منصوبہ ہے۔
آج مسلم امہ پر جو قیامت برپا ہے، اس کی بڑی وجہ اگر ایک طرف اسلام دشمن قوتوں کی سازشیں ہیں، تو دوسری طرف اس کے ذمہ دار مسلمان حکمران خود بھی ہیں جو مسلم دشمن طاقتوں کی سازشوں کا ادراک ہونے کے باوجود بھی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اتفاق و اتحاد میں ناکام رہے ہیں اور بڑے افسوس بلکہ ماتم کا مقام ہے کہ مسلمان حکمران مسلم امہ کے خلاف بننے والے اتحادوں کا حصہ بھی رہے ہیں۔ جب تک آستین کے یہ سانپ ختم نہیں ہوں گے، مسلمانانِ عالم اسی طرح غیروں کے ظلم و جبر کا نشانہ بنتے رہیں گے۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔