وہ بہترین مشاہدہ رکھتے تھے۔ ایک ہزار سال پہلے عباسی خلافت کے تاجر اور حکام، بغداد یا بصرہ سے لے کر شمالی یورپ، ہندوستان، چین اور آج کے کمبوڈیا، انڈونیشیا اور سری لنکا تک کے لوگوں کا احوال تحریری صورت میں لاتے تھے۔ عباسی خلافت نے مغربی ایشیا و شمالی افریقا میں 750ء سے لے کر 1000ء تک حکمرانی کی۔ یہاں تک کہ کمزور ہونے کے بعد اس کا خاتمہ ہوگیا۔
ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں قرونِ وسطیٰ کی تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر مائیک وان برکیل کہتے ہیں کہ ’’بغداد دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک تھا، جسے امن کا شہر کہتے تھے اور اس کی آبادی لگ بھگ پانچ لاکھ تھی، یعنی اس وقت کے یورپ کے شہروں سے کہیں زیادہ۔ بغداد اہم اقتصادی و تجارتی مرکز تھا، جہاں سے حکومت کے یورپ میں فرانس اور چین، ہندوستان اور وسط ایشیا کے ساتھ تجارتی رابطے اور تعلقات تھے۔‘‘
عباسی خلافت پر مہارت رکھنے والے وان برکیل کہتے ہیں کہ ’’پورے مشرق وسطیٰ سے لوگ بغداد آتے تھے، یہ ایک اہم مذہبی، علمی و سائنسی مرکز تھا۔ یہاں کے جغرافیہ دان اسپین سے لے کر موجودہ پاکستان تک پھیلے ہوئے دارالاسلام سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے سڑکوں اور دریاؤں، شہروں، قدرتی ماحول اور انتظامات کے نقشے مرتب کر رکھے تھے۔ اس زمانے میں ان کی ہندوستان کے بارے میں معلومات یورپ سے بہت زیادہ تھی۔‘‘
ابو زید السرافی کی ’’اخبار چین و ہند‘‘ کا حال ہی میں ترجمہ ہوا ہے، جو عباسی عہد میں اس باہمی تعلق کی شاندار داستانیں بیان کرتی ہے۔ آج کے زمان و مکان میں کھوئے ہوئے قاری کے لیے ہوسکتا ہے کہ مصنف کے چند مشاہدات ناقابل یقین ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کی بیشتر چیزیں بالکل سچ ہیں، جن کی جدید ہندی و چینی ماخذ سے تصدیق ہوسکتی ہے۔ انگریزی میں اس کو ترجمہ کرنے والے میکنٹوش اسمتھ نے "اخبار چین و ہند” کو آج کی صحافت سے تعبیر کیا ہے۔ وہ خود بھی سفرنامے لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا اندازہ آج کی کسی ’’آن لائن، انٹر ایکٹو ٹریول ویب سائٹ‘‘ جیسا ہے۔ ابو زید چاہتے تھے کہ اخبار خواب و خیال کی دنیا پیش نہ کرے بلکہ وہ حقیقت کا عکاس ہو۔ انہوں نے کسی بھی ایسی معلومات کو شامل نہیں کیا،جو انسان کی عقل سے ماورا ہو۔ ان کا لکھنا ہے ’’مختصر، بہتر‘‘ یعنی آج ہی کا صحافتی اصول کہ خبر کو سادہ اور مختصر ہونا چاہیے۔ ابو زید کی سفری داستانیں ابتدائی عباسی عہد میں مشرق کی جانب سے عرب اسلامی ثقافت کے اثر و رسوخ خاص طور پر چین کے ساتھ تعلقات کو بیان کرتی ہیں۔ دیباچے میں دوسرے عباسی خلیفہ اور بغداد کی بنیاد رکھنے والے المنصور کا یہ قول موجود ہے، جو دریا کے کنارے کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ ’’یہ دجلہ ہے، اس کے اور چین کے راستے کے درمیان کوئی رکاؤٹ نہیں۔‘‘
عرب جہاز ایک موسم میں مشرق کی جانب سفر کرتے تھے جب ہوا، اس سمت کی چلتی تھی اور جب ’’موسم‘‘ جسے اب مون سون کہتے ہیں، کی ہوائیں چلتی تھیں، تو جہاز واپس آ جاتے تھے۔ اس مون سون تجارت کا اہم مرکز خلیج میں سراف کا مقام تھا کہ جہاں سے ابو زید کا تعلق تھا۔ یہ آج کے ایران میں واقع ہے۔ سراف سے جہاز خلیج پار کرتے ہوئے مسقط کی عمانی بندرگاہ تک جاتے تھے اور وہاں سے ہندوستان، چین، جزیرہ نما ملائیشیا، جاوا اور اس سے بھی آگے جاتے تھے۔ اہم ترین چینی بندرگاہ خانفو تھے، جو آج گوانگڑو کے شہر کا حصہ ہے۔ جب عباسی چین دریافت کر چکے تھے، تب چینی ’’مغرب‘‘ کو کھوج رہے تھے اور ان کی کہانیاں عراق کے بحری راستوں اور بنگڈا کو بیان کرتی ہیں، وہ بغداد کو اسی نام سے پکارتے تھے۔ عباسی خلافت کا عروج چین میں تانگ خاندان کے شباب کا زمانہ تھا۔ اخبار میں چینی دربار کو منظم اور معاشرے کو باقاعدہ قرار دیا گیا ہے۔ حکومت شہریوں کا خیال رکھتی ہے۔ اگر بیمار ہونے والا غریب ہو، تو ’’اسے سرکاری خزانے سے علاج معالجے کے لیے اخراجاتے دئیے جاتے ہیں۔‘‘جب کوئی شہری اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے، تو اسے مناسب سا ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ بزرگ اس ٹیکس سے مستثنا ہیں بلکہ انہیں پنشن دی جاتی ہے۔ ہر شہر میں ایک سکول ہے،جہاں استاد بھی ہیں اور غریبوں کے بچوں کو سرکاری خزانے سے تعلیم اور خوراک دی جاتی ہے۔ ’’چینی، چاہے امیر ہوں یا غریب، جوان ہوں یا بوڑھے، سب لکھنا پڑھنا جانتے ہیں۔‘‘ ابو زید چین میں ’’قابل تعریف حکومت‘‘ کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کے پاس قانون کی پاسداری ہے۔ ضرورت پڑنے پر قانون پر سختی سے عملدرآمد ہوتا ہے اور امیروں کو بھی ان کے کیے کی پوری سزا ملتی ہے۔ ریاست کی آمدنی ٹیکس اور حاکم کو ملنے والے نمک اور چائے بیچنے کے خصوصی اختیارات سے حاصل ہوتی ہے۔
عربوں کو چین کے سفر سے پہلے چائے کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ ابو زید کے اخبار کے مطابق چائے ’’ایک پودا ہے، جسے گرم پانی کے ساتھ پیا جاتا ہے اور یہ ہر شہر میں مہنگی قیمتوں پر فروخت ہوتا ہے۔ اسے بنانے کے لیے پانی اُبالا جاتا ہے، پھر اس کے پتے چھڑکے جاتے ہیں اور اسے تمام بیماریوں کے علاج کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
عرب سیاحوں کو چین کی صنعتوں پر سب سے زیادہ حیرت ہوئی: ’’خدا کی تمام مخلوقات میں چینی کندہ کاری اور ساخت گری میں سب سے ماہر ہیں۔ اس معاملے میں دنیا کی کوئی قوم ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی۔‘‘
لیکن عربوں کی نظر میں سب کچھ اچھا نہیں تھا۔ وہ چینیوں کی صفائی پسندی سے بہت پریشان ہوتے تھے۔ چینی حاجت سے فارغ ہونے کے بعد پانی کے بجائے محض کاغذ کا استعمال کرتے ہیں اور کھانے سے پہلے دانت اور ہاتھ صاف نہیں کرتے۔ چینیوں کی زنان بازاری اور دیگر بری عادتیں بھی عربوں کے لیے ناقابل برداشت تھیں۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ اس لیے نویں صدی کے اواخر میں تانگ خاندان کو بھی زوال آیا۔ ایک بغاوت نے تانگ حکومت کو کمزور کردیا اور خانفو میں ہزاروں غیر ملکی تاجروں کا قتل عام ہوا۔ یوں براہِ راست عرب چین تجارت تو رُک گئی، البتہ بالواسطہ تجارت جاری رہی جیسا کہ عرب تاجر ہندوستان سے چینی برتن خریدتے تھے۔ اس کی چند دہائیوں کے بعد ہی عباسی خلافت کی گرفت بھی کمزور پڑنے لگی۔
وان برکیل بتاتے ہیں کہ سرحدی علاقے تو خلیفہ کا صرف نام ہی لیتے تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب عراق سے ایک اور سیاح، ابن فضلان نے وولگا بلغار کا رخ کیا۔ انہوں نے نئی ثقافتوں اور مقامات اور وائی کنگز سے ملاقات کا احوال تحریر کیا، جو آج بھی ان کے بارے میں قدیم ترین تحریری دستاویز ہے۔
اخبار ماضی کے گم گشتہ عہد کے بارے میں ہمارے خواب و خیالات کو آگے بڑھاتا ہے، جو بتاتا ہے کہ اس زمانے کے انسان بھی اکیسویں صدی کے انسان جیسے ہی تھے۔ ابن فضلان کے سفر نے انگریزی کو ایک بڑا ناول ’’ایٹرز آف دی ڈیڈ‘‘ اور فلم ’’دی تھرٹینتھ واریئر‘‘ دی۔ (اردو ٹرائب ویب سے انتخاب)
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔