جنگ ختم ہو جاتی ہے، لیکن جنگی ذہنیت، جنگی جنون اور جنگ کی بربادیاں ہمیشہ کے لیے باقی رہ جاتی ہیں…… لیکن جنگ جب ختم ہی نہ ہو اور اُسے طول پر طول دیا جا رہا ہو، تو پھر جنون، انتہا پسندی اور وحشت 7 پشتوں کو کھا کے بھی زندہ رہتی ہیں۔
جنگ زدہ خطے میں اکثر زندگی کا تصور محض زندہ رہنے تک محدود ہو جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر جنگ انسانی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر دیتی ہے۔ جنگ، انسانی ادب، سماج، فکر، نفسیات…… حتیٰ کہ انسانی روزمرہ زندگی پر بھی اپنا اثر چھوڑ جاتی ہے۔
جنگ، انسانی رگوں سے زندگی کی رمق نچوڑ دیتی ہے، لیکن انسان کی جبلت ہے کہ کھل کے جینے کی خواہش سمندر کی لہروں کی طرح ہمیشہ اُس کے سینے میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔
جنگ زدہ خطے کی بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ سماج پر اُن لوگوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، جو جنگی بیانیے کو دوام بخشتے ہیں اور جنگ سے جڑے مخصوص طبقے کے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے میں (دانستہ و نادانستہ) آلۂ کار بنتے ہیں۔ وہ رفتہ رفتہ زندگی کے ہر پہلو پر اپنی اجارہ داری سمجھ کے اس پر اثرانداز ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ اکثر یہ سب کچھ وہ جنگ پرست طبقہ کی سرپرستی میں کرتے ہیں۔ ان کی ’’سٹریٹ پاؤر‘‘ کی وجہ سے ان کے آقا بھی اکثر انھیں کچھ کَہ نہیں پاتے۔
اس کے برعکس ایک طبقہ ایسا ہے جو اس جنونیت کے خلاف کسی نہ کسی شکل میں مزاحمت کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنی ثقافت میں اپنا کھویا ہوا آپ اور اپنی کھوئی ہوئی شناخت ڈھونڈتے ہیں۔ وہ آرٹ کو اپنی تاریخ اور ثقافت سے جڑے رہنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ رنگوں میں اس خطے کی مسخ شدہخوب صورت شکل تلاش کرتے ہیں۔ وہ ہر ساز میں محبت کا کوئی ایک ایسا ساز ڈھونڈتے ہیں، جس سے نفرتیں کم ہوسکیں۔ وہ شعر، ٹپہ، غزل، رباعی و دیگر اصنافِ سخن میں اپنے ساتھ اور اس پورے خطے کے ساتھ کھیلی جانے والی خونی کھیل کی کہانی سناتے ہیں، تاکہ نہ صرف آنے والی بلا کو ٹالا جاسکے، بل کہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی کچھ لکھی ہوئی شکل میں چھوڑا جاسکے۔
ذکر شدہ دوسرا طبقہ جذبات کے جواب میں دلیل رکھتا ہے اور سوال اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ اس طبقے کے بیش تر افراد گالی اور گولی کے بہ جائے بولی (مکالمہ) اور آرٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ خود سوچتے ہیں اور دوسروں کو سوچنے پر اُبھارتے ہیں۔ وہ تخلیقی اور تنقیدی سوچ پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔اقلیت میں ہیں، اس لیے اکثر تمام تر کوششوں کے باوجود بھی متشدد اذہان رکھنے والوں کے مقابلے میں کم زور پڑ جاتے ہیں…… لیکن مزاحمت کی چنگاری سُلگتی رہتی ہے اور کسی دن ایسی آگ پکڑلیتی ہے کہ متشدد طبقہکے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔
دراصل اول الذکر طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے زندگی کو حرام قرار دے رکھا ہے۔ وہ خود جیتے ہیں اور نہ دوسروں کو جینے دیتے ہیں۔ بیش تر ’’نان ایشو‘‘ کو ’’ایشو‘‘ بنانا ان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے ۔اس طبقہ کے بیش تر لوگ عورت کو مرد کی ملکیت سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک عورت اب بھی ناقص العقل ہے، وہ مکمل انسان نہیں بنی اور نہ صحیح اور غلط میں تمیز ہی کرسکتی ہے۔ اس لیے عورت کو بس چادر اور چار دیواری تک ہی محدود رہنا چاہیے۔ وہ مذہب کو ذاتی تشہیر اور سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اپنا خود ساختہ عقیدہ دوسروں پر تھوپتے ہیں…… یہ جانے بغیر کہ عقیدہ تو انسانی شعور اور انسانی ضمیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک ہر تخلیقی عمل سے ان کا عقیدہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ وہ ثقافت کو منجمد سمجھتے ہیں، لیکن ثقافت اپنی ارتقا میں کسی کی محتاج نہیں ہوتی، بل کہ یہ ان ذہنوں کو روندتی جاتی ہے، جنھیں لگتا ہے کہ وہ اس کا راستہ روک سکتے ہیں۔
دراصل ’’نیبراسکا یونیورسٹی‘‘ کا تیار کردہ لیٹریچر پڑھنے والا یہ طبقہ موسیقی، آرٹ، آہنگ اور ہر تخلیقی سرگرمی کو انسانی روح کی ضرورت کے بہ جائے فحاشی اور کفر سمجھتا ہے…… اور اس کے خلاف جہاد کرنا ’’افغان جہاد‘‘ کی طرح اپنا بنیادی فریضہ سمجھتا ہے…… لیکن المیہ یہ ہے کہ کفر، فساد فی الارض برپا کرنے والوں اور معاشرے کی رگوں میں نشے کا زہر اتارنے والوں پر اکثر وہ ایسے خاموش پائے جاتے ہیں، جیسے ان موقعوں پر خاموش رہنا فرضِ عین ہو۔
آرٹ کے ذریعے اپنی لڑائی لڑنے والے مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور اُن کا نام تاریخ کے صفحوں میں زندہ رہتا ہے۔ وہ ظلم پر خاموش رہنے کے بہ جائے اپنے آرٹ کی مدد سے احتجاج کرتے ہیں اور اس احتجاج کا شور پھر گونجتا رہتا ہے، جیسے آج کل پروفیسر صاحب کے آہنگ کا شور گونج رہا ہے۔
خدا کرے کہ خوش کن ساز ہمیشہ گونجتا رہے، تاکہ سماعت خراش متشدد آوازیں اور چیخیں ہمارے کانوں تک نہ پہنچ سکیں۔
مزاحمت زندہ باد……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










