خدمت، سیاست اور فکری جمود کا المیہ

Blogger Sajid Aman Swat

ڈاکٹر گوہر علی نے ’’بنو قابل‘‘ یا ’’بنو قابلِ سیاست‘‘ کے عنوان سے لفظونہ ڈاٹ کام کے قارئین کے لیے ایک عمدہ تحریر لکھی ہے۔ اُمید ہے کہ جماعتِ اسلامی کے ’’فارمولا ذہن‘‘ والے افراد اس کو تعمیری تنقید کے طور پر لیں گے، اس لیے میں ڈاکٹر گوہر کی بات آگے بڑھانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ درخواست ہے کہ جماعتِ اسلامی والے اپنی مُہر (سٹیمپ) ایک سائڈ پر رکھ کر توجہ سے میری یہ سطور پڑھیں۔
جماعتِ اسلامی کی سماجی اور تعلیمی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے ، مگر ایک سیاسی پارٹی کے طور پر جماعتِ اسلامی کبھی وہ مقام حاصل نہ کر سکی اور نہ مستقبلِ قریب ہی میں کرنے والی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی کو اس کی وجوہات کا ادراک بھی نہیں۔
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک سنجیدہ اور خالص سیاسی جماعت بنانے کی کوشش صرف قاضی حسین احمد (مرحوم) نے کی تھی۔ اُنھوں نے پہلی مرتبہ اقتدار کے ایوانوں تک سیاسی سہارے کی مدد سے پہنچنے کی کوشش کی، مگر اُن سے پہلے اور اُن کے بعد، بل کہ خود اُنھوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار تک پہنچنے کا واحد سہارا سمجھا۔ یوں جماعتِ اسلامی سیاسی نظم و ضبط کے بہ جائے مخصوص جماعتی سوچ کے حصار سے نکل نہیں پا رہی۔ جماعت اسلامی کئی تنظیموں کی ماں ہے، مگر خود الخدمت، آغوش، بنو قابل، پاسبان، شبابِ ملی وغیرہ کے سامنے ایک ’’بونے ‘‘ کی طرح کھڑی نظر آتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جماعتِ اسلامی اب ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ فرقہ بن کر رہ گئی ہے۔ اگرچہ جماعت اسلامی والے خود کو فرقہ نہیں سمجھتے، مگر عوام ان کو ایک مخصوص طبقہ یا فرقہ ہی تصور کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ جہاں دوسری پارٹیوں میں موروثی قیادت ہوتی ہے، وہاں جماعتِ اسلامی میں اُلٹا معاملہ ہے۔ یہاں موروثی کارکن ہیں، جو پارٹی کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور اسے ایک ’’پالتو جماعت‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہی حافظ نعیم کا المیہ ہے؛ یہی سیراج لالا کی ’’رسی کی لمبائی‘‘ تھی۔
اگر جماعتِ اسلامی کو ایک حقیقی سیاسی پارٹی بننا ہے، تو اسے سیاسی پارٹیوں کے طور پر فلاسفرز، سوچنے والے، لیڈر شپ، کارکنان اور حامیوں کی عصرِ حاضر کی ضرورتوں کو سمجھنا ہوگا۔ اس پارٹی میں فلاسفرز کی کمی ہے۔ عام کارکن گھٹن محسوس کررہا ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ یہ پارٹی ہے، انجمن ہے، این جی او ہے، تحریک ہے یا خود کو ’’باکردار‘‘ کہلوانے کے شوقین لوگوں کا فین کلب؟
حیرت تب ہوتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ موروثی کارکنانِ جماعت صرف سنی سنائی باتوں اور روایات کے سہارے نظریاتی کارکن بنے ہوئے ہیں، یا محض ’’جذبۂ جہاد‘‘ کے متاثرین ہیں۔ مولانا مودودی کی تعلیمات اُن تک کسی کتاب سے نہیں پہنچیں، نہ اُنھوں نے اس کی ضرورت محسوس ہی کی۔
کسی زمانے میں جماعتِ اسلامی اور بائیں بازو کی جماعتوں میں مطالعے کا رجحان ہوتا تھا۔ اسی مطالعے کی فراوانی نے خالص نظریاتی کارکن پیدا کیے، مگر نقصان یہ ہوا کہ حقیقی کارکن کسی کے پاس نہ رہے۔ دانش وروں کے بوجھ تلے دایاں بازو چل سکا نہ بایاں بازو…… اور اب ملکی سیاست دونوں بازوؤں سے مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ تو بھلا ہو ’’سوویت یونین‘‘ کا کہ اُس نے سامراج سے ٹکرلی اور جواباً سامراج نے پوری دنیا میں دائیں بازو کو گود لے لیا۔ دایاں بازو طاقت ور تو ہوا، مگر ایک قسم کے ’’مینیا یوپوریا‘‘ (Mania Euphoria) کا شکار ہوگیا۔ وہ طاقت جو اُس کے پاس تھی، دراصل اُس کی اپنی نہیں تھی، بل کہ سامراج کی انجکٹ (Inject) کردہ تھی۔
پھر دائیں بازو نے ’’اسٹیمپ‘‘ اُٹھا کر کافر و مسلم کی خود ساختہ تشریح شروع کر دی۔ حالاں کہ ایمان کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہوتا ہے، مگر اُنھوں نے خود کو بہت لاڈلا سمجھ کر یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔ جب جدید سامراجی نظام نے لبرل ازم اپنایا، تو دایاں بازو کسی پرانی مشینری کی طرح ’’کباڑیے کی قسمت‘‘ میں لکھا گیا۔
یہ مَیں بہک کر کہاں نکل گیا…… بات ہورہی تھی جماعتِ اسلامی کی، مگر دراصل تمام ’’ریڈیکل‘‘ دائیں بازو اور تمام بائیں بازو کی پارٹیوں کا یہی المیہ ہے کہ وہ ’’صبحِ نو‘‘ میں آنکھیں کھولنے کو تیار نہیں۔
اور اگر اس نشست کو جماعتِ اسلامی تک محدود کیا جائے، تو ہر شہر میں لوگ گن کر بتاسکتے ہیں کہ کون کس خاندان سے ہے؟ ’’فُلاں کا بیٹا‘‘، ’’فُلاں خاندان‘‘ اور کہانی ختم……!
ان کے تعارف میں صرف اتنا کہا جائے گا:’’وہ جماعتِ اسلامی والے ہیں!‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے