ادب کی دنیا ایک ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی میں اترنا قاری کو نہ صرف ایک نئی دنیا سے روشناس کراتا ہے، بل کہ اس کے فکر و شعور کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ یہی وہ جادو ہے، جو مجھے بار بار کتابوں کی طرف کھینچ لاتا ہے ۔ حال ہی میں میرے مطالعے کا محور دو ایسی ہی عظیم کتابیں رہیں: جارج اورویل کا ’’اینمل فارم‘‘ (Animal Farm by George Orwell) اور البرٹ کامیو کا ’’دی سٹرینجر‘‘ (The Stranger by Albert Camus)۔
یہ دونوں کتابیں اپنے اُسلوب، فنی ساخت اور بیانیے کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ ایک جانب ’’اینمل فارم‘‘ کی طنزیہ اور علامتی داستان ہے، تو دوسری جانب ’’دی سٹرینجر‘‘ کا گم صم اور فلسفیانہ آہنگ…… مگر ان کی کشش کا راز ان کے اس مرکزی خیال میں پنہاں ہے، جو انسان، اس کی آزادی اور اس کے وجود کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھاتا ہے۔
٭ اینمل فارم، جمہوریت کا المیہ اور طاقت کا نشہ:۔ ’’اینمل فارم‘‘ درحقیقت جانوروں کی ایک سادہ سی کہانی نہیں، بل کہ سیاست اور طاقت کے اس کھیل کی وہ شاہ کار عکاسی ہے، جس نے ہر دور کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اورویل نے انتہائی کاریگری سے دکھایا ہے کہ کس طرح ایک انقلاب، جو برابری اور آزادی کے نعروں سے جنم لیتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہی بانیوں کی ہوسِ اقتدار کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
یہ ناول پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ ہمارے جیسے معاشروں کے قاری اس کی ہر سطر میں اپنی ہی کہانی پاتے ہیں۔ ہم نے بھی تبدیلی کے ترانے گائے ہیں، انقلاب کے سپنے دیکھے ہیں، مگر اکثر یہ دیکھا ہے کہ محض حکم رانوں کے چہرے بدلتے ہیں، استحصال کا نظام جوں کا توں رہتا ہے۔
اس ناول کا وہ مشہورِ زمانہ جملہ ’’تمام جانور برابر ہیں، مگر بعض جانور دوسروں سے زیادہ برابر ہیں۔‘‘ درحقیقت عالمی سیاست کی اُس تلخ حقیقت پر مبنی دستاویز ہے، جہاں مساوات کے تمام تر دعوے محض ایک فریب ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ناول ہمیں اجتماعی بیداری کی دعوت دیتا ہے اور ہمارے سماجی ڈھانچے پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔
٭ دی سٹرینجر، زندگی کی بے معنویت اور اندر کی خاموشی:۔ اگر ’’اینمل فارم‘‘باہر کی دنیا کا احوال ہے، تو ’’دی سٹرینجر‘‘ اندر کے سفر کا پُراسرار رستہ ہے۔ البرٹ کامیو کا یہ ناول قاری کے ذہن پر ایک عجب کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ اس کا مرکزی کردار ’’مرسو‘‘ ایک ایسا انسان ہے، جو روایتی جذبات، رشتوں اور سماجی اقدار سے کٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی بے حسی، جو پہلی نظر میں سنگ دلی لگتی ہے، درحقیقت وجودیت اور عبثیت (Absurdism) کے ان گہرے سوالات کی طرف اشارہ ہے، جو کامیو کو درپیش تھے۔
یہ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ اگر زندگی کا کوئی فطری مقصد نہ بھی ہو، تو بھی انسان کا فرمان ہے کہ وہ اس بے معنویت کے باوجود جینے کا حوصلہ کرے۔ زندگی کی اس خالی پن کو تسلیم کر لینا ہاری ہوئی بات نہیں، بل کہ ایک نئی قسم کی بیداری کا آغاز ہے۔
’’دی سٹرینجر‘‘ہمیں جھنجوڑ کر یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم اکثر بغیر سوچے سمجھے، بغیر کسی گہری حسیاتی وابستگی کے ، محض ایک روٹین کی طرح جی رہے ہوتے ہیں۔
٭ دو جہان، ایک سفر:۔ ان دونوں ناولوں کا موازنہ کرنا ایسا ہے جیسے سورج اور چاند کے درمیان فرق تلاش کیا جائے۔ دونوں روشنی دیتے ہیں، مگر اپنے اپنے انداز میں۔ ’’اینمل فارم‘‘ ہمیں معاشرے اور اس کے نظام سے سوال کرنا سکھاتا ہے، جب کہ ’’دی سٹرینجر‘‘ ہمیں ہمارے اپنے وجود کی گہرائیوں میں اترنے پر آمادہ کرتا ہے۔
یہ دونوں کتابیں اپنے قاری کو ایک ایسے سفر پر لے جاتی ہیں، جس کا اختتام کتاب کے آخرے صفحے پر نہیں ہوتا، بل کہ یہ قاری کے ذہن میں اگلے کئی دنوں، مہینوں اور برسوں تک گونجتی رہتی ہیں۔ یہی تو ادبِ عظیم کا معیار ہے…… اور یہی وہ چنگاری ہے، جو ایک قاری کے دل و دماغ کو ہمیشہ کے لیے روشن کر دیتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










