ٹرمپ کا امن منصوبہ، غزہ کا نیا امتحان

Blogger Fazal Manan Bazda of Thana

امریکہ، اسرائیل، عرب ممالک، قطر، پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں نے مشترکہ طور پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ 20 نِکاتی امن منصوبے کی حمایت کی ہے۔ اس معاہدے کی دلیل میں یہ نقطہ قابلِ توجہ ہے کہ اسرائیل کے لیے کوئی سخت شرط وضع نہیں کی گئی اور بیش تر شرائط اس کے مفاد میں دکھائی دیتی ہیں۔ عام طور پر جنگ بندی کے معاہدے دونوں فریقوں کی رضامندی پر مبنی ہوتے ہیں، تاہم اس مجوزہ منصوبے میں ’’حماس‘‘ کو شامل کیے جانے یا اس کی رائے لینے کا تسلی بخش ذکر نہیں دیکھا گیا، بل کہ اسے قبول کرنے کا دباو ڈالا جا رہا ہے۔
٭ مجوزہ امن منصوبے کا کل خاکہ:۔ ٹرمپ نے 29 ستمبر 2025ء کو اپنا 20 نِکاتی امن منصوبہ پیش کیا، جسے اس نے ’’نیو غزہ‘‘ (New Gaza) تصور کی بنیاد پر بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ منصوبہ "New Gaza and Trump-led Board of Peace” کے عنوان سے ’’رائٹررز‘‘ (Reuters) نے رپورٹ کیا ہے۔
اس منصوبے کے مطابق:
٭ اگر دونوں فریق اس تجویز پر متفق ہوں، تو جنگ فوراً بند ہو جائے گی، اور اسرائیلی افواج ایک متفقہ لائن تک پسپائی کریں گی، جب کہ تمام عسکری کارروائیاں معطل کر دی جائیں گی۔
٭ معاہدے کی عوامی منظوری کے 72گھنٹوں کے اندر، غزہ میں قید تمام زندہ قیدی اور شہدا کے باقیات واپس کیے جائیں گے۔
٭ اس کے بعد، اسرائیل 250 عمر قید یافتہ فلسطینی قیدیوں کے علاوہ 1,700 افراد جو 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیے گئے تھے، کو رہا کرے گا۔
٭ ہر اسرائیلی قیدی کی واپسی پر، اسرائیل 15 فوت شدہ غزہ باشندوں کی باقیات واپس کرے گا۔
٭ معاہدے کے بعد، حماس کے ارکان کو عمومی معافی دی جائے گی، بہ شرط یہ کہ وہ پُرامن بقائے باہمی کا عہد کریں اور اپنے ہتھیار ضائع کریں۔
٭ غزہ کی تعمیرِ نو، بنیادی ڈھانچے کی بہ حالی، امدادی تقسیم اور توانائی کی فراہمی جیسے پہلو معاہدے کا حصہ بنائے گئے ہیں۔
٭ معاہدے میں یہ بھی تجویز ہے کہ ایک عبوری حکومت قائم کی جائے، جو ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہو۔ اس کا انتظام "International Board of Peace” کے تحت کیا جائے گا، جس کی صدارت ٹرمپ کریں گے۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئرکا نام اس بورڈ کے ممکنہ رکن کے طور پر زیرِ غور ہے۔
٭ ایک عارضی بین الاقوامی فورس (International Stabilization Force) کی تعیناتی بھی منصوبے کا حصہ ہے، جو امن کے نفاذ کی نگرانی کرے گی۔
اب آتے ہیں ردِعمل اور اعتراضات کی طرف:
٭ پاکستان کا موقف:۔ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ یہ 20 نِکاتی منصوبہ ’’پاکستان کی اصل مسودے کی ترجمانی نہیں کرتا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اس میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، جو مسلم اکثریتی ممالک کے پیش کردہ مسودے سے مختلف ہیں۔
٭ مبصرین اور ناقدین کا نقطۂ نظر:۔ کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بنیادی طور پر اسرائیل کے مفادات کے قریب ہے اور فلسطینی حقوق کی ضمانت دینے سے قاصر ہے۔ مثلاً، Once Again, Netanyahu has Outplayed Trump کے زیرِ عنوان مضمون میں بیان کیا گیا ہے کہ منصوبہ اسرائیلی مقاصد کو فروغ دیتا ہے۔
اس کے علاوہ کچھ تجزیہ کاروں نے اس منصوبے کو’’ون سائیڈڈ‘‘ قرار دیا ہے، یعنی ایک فریق کو فوقیت دینے والا معاہدہ۔
٭ حماس کا ردِ عمل:۔ حماس نے کہا ہے کہ وہ اس منصوبے کی بعض شقوں کو قبول کرتی ہے اور مزید مذاکرات کی خواہاں ہے، مگر وہ مکمل تقسیم یا غیر مسلح ہونے پر رضامندی کا اعلان نہیں کر رہی۔
ٹرمپ نے حماس کو تین سے چار دنوں میں جواب دینے کی مہلت دی ہے اور یہ کہا ہے کہ اگر وہ معاہدہ نہیں مانے گی، تو "Sad End” ہوگی۔
٭ جنگ بندی کا اطلاق اور تنازع:۔ ٹرمپ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ فوراً غزہ پر بمباری بند کرے، تاکہ قیدیوں کی بازیابی ممکن ہوسکے۔تاہم، رپورٹس ہیں کہ بعض علاقوں میں قتل و غارت جاری ہے، اور جنگ بندی کا مکمل نفاذ ابھی باقی چیلنج ہے۔
اب آتے ہیں کچھ تنقیدی نِکات اور خدشات کی طرف:
٭ منصوبے میں ’’حماس کی شمولیت نہ ہونا‘‘ ایک بڑا اعتراض ہے۔ کیوں کہ ایک معقول جنگ بندی میں فریقِ ثالث کو مذاکرات کا حصہ ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
٭ معاہدے میں فلسطینی ریاست یا خود ارادیت کا واضح ٹائم فریم نہیں دیا گیا اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی حقوق کو بعد کی شقوں پر چھوڑا گیا ہے۔
٭ عبوری حکومت اور بین الاقوامی کنٹرول کی تجویز بعض حلقوں میں خارجی تسلط کا تاثر پیدا کرتی ہے، خصوصاً اگر اس میں مقامی نمایندگی کم ہو۔
٭ بعض مبصرین نے استدلال کیا ہے کہ منصوبہ زور زبردستی مفاہمت کی شکل اختیار کر رہا ہے، یعنی فلسطینی انتخاب اور شروط پر دباو ڈالے جانے کا امکان ہے ۔
٭ بین المذاہب مکالمے کی شرط کو بھی بعض ناقدین نے تنقیدی نگاہ سے دیکھا ہے، جسے وہ سماجی نفسیات میں تبدیلی کے مقصد کے تحت دیکھتے ہیں۔
٭ پاکستان کی جانب سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ منصوبہ اصل مسلم ملکوں کی مسودے کا عکس نہیں، اور اس میں رد و بدل ہوتے رہے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے