(یہ تحریر دراصل برطانوی اخبار ’’دی گارڈین‘‘ میں شائع ہونے والی ایک طبی تحقیق کا ترجمہ ہے، مترجم)
سائنس دانوں نے ایک نیا ’’مصنوعی ذہانت‘‘ (Artificial Intelligence) پر مبنی ٹول تیار کیا ہے، جو نہ صرف کسی فرد میں ایک ہزار سے زائد بیماریوں کے خطرات کی نشان دہی کرسکتا ہے، بل کہ آیندہ دس برسوں تک صحت میں آنے والی تبدیلیوں کی پیش گوئی بھی کرتا ہے۔
یہ جنریٹو اے آئی ٹول، ’’یورپین مالیکیولر بایولوجی لیبارٹری‘‘ (ای ایم بی ایل)، ’’جرمن کینسر ریسرچ سینٹر‘‘ اور ’’یونیورسٹی آف کوپن ہیگن‘‘ کے ماہرین نے تیار کیا ہے۔ اس ٹول میں وہی ’’الگورتھم‘‘ استعمال کیے گئے ہیں، جو بڑی ’’لینگویج ماڈلز‘‘ (LLMs)میں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ اب تک کی سب سے جامع مثال ہے کہ کس طرح جنریٹو اے آئی کو بڑے پیمانے پر انسانی بیماریوں کے ارتقائی مراحل کو سمجھنے اور پیش گوئی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس انقلابی تحقیق کی تفصیلات جریدہ ’’نیچر‘‘ (Nature) میں شائع ہوئیں۔ ’’ای ایم بی ایل‘‘ کے اسٹاف سائنس دان، ٹامس فِٹزجیرالڈ (Tomas Fitzgerald)کے مطابق، طبی واقعات اکثر پیش گوئی کے قابل پیٹرن پر چلتے ہیں۔ ہمارا اے آئی ماڈل انھی پیٹرنوں کو سیکھتا ہے اور مستقبل کے صحت کے نتائج کی پیش گوئی کر سکتا ہے۔
یہ ٹول مریض کی سابقہ طبی تاریخ، جیسے مختلف بیماریوں کی تشخیص، طرزِ زندگی (موٹاپا، تمباکو نوشی، شراب نوشی) اور ذاتی عوامل جیسے عمر اور جنس کو مدنظر رکھتا ہے۔ اس ڈیٹا کو بنیاد بنا کر یہ آیندہ 10 سال یا اس سے زیادہ عرصے تک بیماریوں کے خدشات کو شرح کی صورت میں پیش کرتا ہے، بالکل ایسے جیسے موسمیات میں بارش کے امکانات بیان کیے جاتے ہیں۔
یہ نظام ’’ڈیلفی ٹو ایم‘‘(Delphi-2M) کے نام سے متعارف کیا گیا ہے۔ اس نظام کو برطانیہ کے بایو بینک سٹڈی کے 4 لاکھ مریضوں اور ڈنمارک کے قومی مریضوں کے اندراجی نظام کے 19 لاکھ افراد کے گم نام اعداد و شمار پر تربیت دی گئی۔
ای ایم بی ایل کے قائم مقام ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایوان برنی کے مطابق، چند سالوں میں مریض اس ٹول کے بہ راہِ راست فوائد اُٹھا سکیں گے۔ ایک عام معالج اس سے استفادہ کرتے ہوئے مریض کو مستقبل کے بڑے خطرات بتا سکے گا اور ساتھ ہی عملی اقدامات تجویز کرے گا۔ مثال کے طور پر وزن کم کرنے یا سگریٹ نوشی ترک کرنے کی ہدایات تو عام رہیں گی، لیکن بعض بیماریوں میں اس ٹول کی مدد سے نہایت مخصوص اور انفرادی سفارشات دی جا سکیں گی۔ یہی وہ مستقبل ہے، جسے ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹول موجودہ ماڈلوں کے مقابلے میں زیادہ موثر ہے۔ مثال کے طور پر "Qrisk” صرف دل کے دورے یا فالج کے خطرات کا اندازہ لگاتا ہے، لیکن ’’ڈیلفیٹو ایم‘‘ ایک ہی وقت میں ہزار سے زائد بیماریوں کی شرح پیش کر سکتا ہے اور طویل مدت تک پیش گوئی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جرمن کینسر ریسرچ سینٹر میں شعبۂ آنکالوجی (Oncology)کے تحت اے آئی ڈویژن کے سربراہ پروفیسر موریٹز گرسٹنگ (Prof Moritz Gerstung)نے کہا، یہ انسانی صحت اور بیماریوں کی پیش رفت کو سمجھنے کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ ہمارا جنریٹو ماڈل مستقبل میں انفرادی سطح پر علاج کو ذاتی نوعیت دینے اور بڑے پیمانے پر صحت کی ضروریات کو پیشگی جانچنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔










