اگر میں یہ دعوا کروں کہ رواں سال اگست سے لے کر آیندہ سال کے موسمِ گرما تک ہمارے ہاں شدید سیلابی خطرات کا امکان موجود ہے، اور پاکستان ایک بار پھر شدید سیلابی صورتِ حال سے دوچار ہو سکتا ہے۔ نیز دریائے سوات میں ایک بار پھر 2009ء، 2015ء اور 2022ء کی طرح خطرناک سیلابی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے، تو شاید آپ میری بات کو محض قیاس آرائی سمجھیں۔
لیکن اگر مَیں آپ کو یہ بات ایک سائنسی بنیاد پر، یعنی قدرت کے ایک ایسے مظہر کے ذریعے ثابت کروں، جو نہ صرف طوفانی بارشوں، بل کہ شدید خشک سالی کا بھی سبب بنتا ہے،تو شاید آپ بھی اس حقیقت کو ماننے پر مجبور ہو جائیں۔
آپ نے یہ بات یقینا کئی بار محسوس کی ہوگی کہ کبھی ہمارے ہاں معمول سے بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور کبھی ہم ہلکی سی بارش کے لیے بھی ترس جاتے ہیں۔ بعض اوقات دریا اچانک بپھر جاتے ہیں اور ملک کے مختلف علاقے شدید بارشوں اور سیلاب کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس کے پیچھے کون سے قدرتی عوامل کارفرما ہوتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب سائنسی نقطۂ نظر سے جاننا عوام کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر ہم ان عوامل کو بروقت سمجھ لیں، تو نہ صرف سیلاب یا خشک سالی کا پیشگی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، بل کہ ان کے ممکنہ خطرات کو بھی بروقت جان کر بچاو کے لیے حکمت عملی تیار کی جا سکتی ہے۔
تو اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان موسمی پیٹرنز کو سمجھ کر بروقت پیش گوئی کر سکتے ہیں…… اگر ہاں، تو کیسے؟
عام طور پر ہمارے ذہن میں یہ خیال ہوتا ہے کہ شدید بارشوں یا خشک سالی کی وجہ جنگلات کی کٹائی یا ’’کلائمیٹ چینج‘‘ ہے، لیکن یہ عوامل صرف موسم کی شدت کو بڑھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر جنگلات زیادہ سے زیادہ ہوں اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم سے کم ہو، تو اس سے ’’گلوبل وارمنگ‘‘ یا ’’کلائمیٹ چینج‘‘ کا مسئلہ شدت اختیار نہیں کرے گا، جس سے عین ممکن ہے کہ طغیانی یا خشک سالی کا دورانیہ کم ہو جائے اور موسم شدید ہونے کے بہ جائے زیادہ معتدل رہیں۔
لیکن اصل میں جب موسم حد سے زیادہ شدت اختیار کرتا ہے، تو اس کے پیچھے جو مظاہر کارفرما ہوتے ہیں، اُنھیں ’’لا نینا‘‘ اور ’’ال نینو‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے خطے میں سب سے بڑی موسمیاتی تبدیلیوں کے پیچھے یہی دو عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ذیل میں ہم تفصیل سے ’’ال نینو‘‘ اور ’’لا نینا‘‘ کو سمجھیں گے کہ یہ دو قدرتی مظاہر کیا ہیں، یہ کیسے موسمی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں اور ان کے اثرات کیا ہوتے ہیں؟ اس کا سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ کیوں کہ چاہے 2010-2012ء کے درمیان پاکستان میں سیلابی تباہ کاریاں ہوں، یا 2015ء اور 2022ء کا شدید سیلاب، یا پچھلے کئی سالوں سے جاری شدید خشک سالی…… ان سب کے پیچھے یہی قدرت کے دو مظاہر (لانینا اور ال نینو) کارفرما رہے ہیں۔
دراصل’’ال نینو‘‘ اور ’’لانینا‘‘ دونوں الفاظ ہسپانوی زبان سے لیے گئے ہیں۔ ’’ال نینو‘‘ کا مطلب ہے ’’ننھا مسیحی بچہ‘‘ جب کہ ’’لانینا‘‘ کا مطلب ہے ’’چھوٹی بچی‘‘۔ یہ نام اس لیے رکھے گئے کہ یہ موسمی مظاہر اکثر دسمبر میں یعنی کرسمس کے آس پاس ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ دونوں مظاہر دراصل بحرالکاہل کے درجۂ حرارت اور ہواؤں کے نظام میں تبدیلی سے جڑے ہوتے ہیں اور پوری دنیا کے موسم پر اثر انداز ہوتے ہیں، خصوصاً بارش، خشک سالی اور درجۂ حرارت پر۔
ان کی تفصیل میں جانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم بحرالکاہل کے جغرافیائی خط و خال کو اچھی طرح سمجھیں۔
بحرالکاہل (Pacific Ocean) دنیا کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر ہے، جو زمین کے مشرقی اور مغربی حصوں کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ اس کا رقبہ 165 ملین مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ شاید آپ نے ہوائی، فیجی، اور گوام جیسے مشہور جزائر کے نام سنے ہوں…… یہ سب اسی سمندر میں واقع ہیں۔
اگر آپ دنیا کا نقشہ دیکھیں، تو امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان جو وسیع نیلا علاقہ نظر آتا ہے، وہی بحرالکاہل ہے۔ اس کے مغرب میں آسٹریلیا اور دیگر ایشیائی ممالک واقع ہیں، جب کہ مشرق میں امریکہ، پیرو اور چلی جیسے ممالک ہیں۔ ان تمام ممالک کا ساحلی علاقہ بہ راہِ راست بحرالکاہل سے متصل ہے۔
عام حالات میں، خطِ استوا کے دونوں جانب تقریباً 30 درجے عرض البلد تک ایک خاص قسم کی ہوائیں چلتی ہیں، جنھیں ’’ٹریڈ ونڈز‘‘ یا تجارتی ہوائیں کہا جاتا ہے۔ انھیں ’’تجارتی ہوائیں‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مخصوص سمت میں مسلسل اور مستحکم انداز میں چلتی ہیں۔ 15ویں سے 18ویں صدی کے دوران میں جب یورپ کے تاجر، خصوصاً پرتگالی، ہسپانوی اور برطانوی،بحری تجارت کیا کرتے تھے، تو اُنھوں نے ان ٹریڈ ونڈز کا سہارا لے کر اپنے جہازوں کو سمندروں میں رواں رکھتے۔ انھی تاجروں نے یہ مشاہدہ کیا کہ کچھ ہوائیں ہمیشہ ایک ہی سمت میں چلتی ہیں، جس سے اُن کا سفر آسان ہو جاتا۔ چناں چہ انھی کے نام پر یہ ہوائیں ’’تجارتی ہوائیں‘‘ کہلائیں۔
کبھی کبھار ایسا دورانیہ بھی آتا ہے، جب ٹریڈ ونڈز (تجارتی ہوائیں) غیر معمولی طور پر تیز ہو جاتی ہیں، یہاں تک کہ ان کی رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹا (یعنی 37.3 میل فی گھنٹا یا 32.4 ناٹس) تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ ہوائیں اتنی طاقت ور ہوتی ہیں کہ ایک تن آور درخت کو بھی جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
جب یہ ہوائیں تیزی سے چلتی ہیں، تو بحرالکاہل کے مشرقی کنارے (پیرو، ایکواڈور) سے گرم پانی کو دھکیل کر مغربی کنارے (آسٹریلیا، انڈونیشیا، فلپائن) کی طرف لے جاتی ہیں۔ اب جہاں سمندر کا پانی گرم ہوتا ہے، وہاں ہوا کا دباو کم ہو تا ہے، اور جہاں پانی ٹھنڈا ہوتا ہے، وہاں دباو زیادہ ہوتا ہے۔
ایک طرف بحرالکاہل کے مغربی حصے میں پانی غیر معمولی طور پر گرم ہو جاتا ہے، جب کہ مشرقی کنارے (پیرو، چلی، ایکواڈور) پر پانی غیر معمولی حد تک ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہاں گہرے سمندر کا ٹھنڈا پانی سطح پر آتا ہے، جسے ’’اپ ویلنگ‘‘(Upwelling) کہا جاتا ہے ۔
اس پورے عمل کے دوران میں مشرق اور مغرب کے درمیان دباو کا نمایاں فرق پیدا ہوتا ہے، جو ان تیز ہواؤں کو مزید طاقت دیتا ہے۔ جس کی بہ دولت نمی سے بھر پور ہوائیں انڈین اوشین، بھارت، پاکستان اور آس پاس کے علاقوں کی طرف رُخ کرتا ہے۔ گرم پانی سے اُٹھنے والے بخارات جب اس دباو کے فرق کے تحت ایشیائی خطے میں پہنچتے ہیں، تو ہوا میں نمی کا تناسب غیر معمولی طور پر بڑھ جاتا ہے، جو بالآخر شدید بارشوں اور طوفانی موسمی حالات کا باعث بنتا ہے۔
کیوں کہ جب بخارات کی شکل میں بلند ہونے والی نمی فضا میں ٹھنڈی ہوتی ہے، تو وہ بادلوں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ چوں کہ نمی کی مقدار معمول سے زیادہ ہوتی ہے، اس لیے بادلوں کی تشکیل بھی غیر معمولی حد تک بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے موسم میں بادل پھٹنے (Cloudburst) کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، جو شدید بارشوں اور سیلابی صورتِ حال کا سبب بنتے ہیں۔ نتیجتاً، دریا اچانک طغیانی کا شکار ہو جاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلتی ہے۔ یہ پورا عمل ایک ’’فیڈبیک لوپ‘‘ (Feedback Loop) کی صورت اختیار کرلیتا ہے، اور اسی قدرتی مظہر کو ہم ’’لا نینا‘‘ کہتے ہیں۔
اس کے برعکس، ’’ال نینو‘‘ کے دوران میں بحرالکاہل میں چلنے والی تجارتی ہوائیں، جو عام طور پر گرم پانی کو مغرب کی طرف (آسٹریلیا اور انڈونیشیا کی سمت) دھکیلتی ہیں، اچانک کم زور ہوجاتی ہیں، رُک جاتی ہیں یا کبھی کبھار اُلٹی سمت میں چلنے لگتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں گرم پانی واپس مشرق کی طرف پیرو اور ایکواڈور کے ساحلوں کی جانب بہنے لگتا ہے، جس سے مشرقی بحرالکاہل کا پانی معمول سے کہیں زیادہ گرم ہو جاتا ہے۔ اس غیر معمولی حد تک گرم پانی کے باعث دنیا کے مختلف خطوں میں موسمیاتی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاً: پیرو اور ایکواڈور میں شدید بارشیں اور سیلاب آتے ہیں، جب کہ آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں شدید خشک سالی اور جنگلات میں آگ لگنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ امریکہ کے جنوبی حصے شدید بارشوں کا سامنا کرتے ہیں، جب کہ شمالی حصے غیر معمولی گرمی کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں ’’ال نینو‘‘ کے اثر سے مون سون کم زور پڑ جاتا ہے، جس کے باعث خشک سالی، پانی کی قلت اور زرعی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوجاتی ہے اور شدید خشک سالی جنم لیتی ہے۔
یہ پورا عمل ایسے ہے جیسے بحرالکاہل ایک بڑا پانی سے بھرا ٹب ہو اور تجارتی ہوائیں ایک پنکھے کی طرح اس پانی کو ایک طرف دھکیل رہی ہوں۔ اگر یہ پنکھا اچانک بند ہو جائے، تو پانی واپس آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہی ’’ال نینو‘‘ ہے۔
’’ال نینو‘‘ عام طور پر 6 سے 18 ماہ تک جاری رہتا ہے اور ہر 2 سے 7 سال کے وقفے سے رونما ہوتا ہے، جو دنیا بھر کے موسم، ہواؤں اور بارشوں کے نظام پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
اب ہم اس اہم سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا ’’ال نینو‘‘ اور ’’لانینا‘‘ جیسے موسمیاتی مظاہر کی پیشگی پیش گوئی ممکن ہے اور دوسرا یہ کہ ماضی میں ان مظاہر نے ہمارے خطے، خصوصاً پاکستان، پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
اس مقصد کے لیے ماحولیاتی تجزیہ کیا جاتا ہے، جس میں مختلف اقسام کے ڈیٹا کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے سمندر کی سطح کا درجۂ حرارت (SST)، بحرالکاہل میں ہواؤں کی رفتار اور فضائی دباو میں فرق، خصوصاً جنوبی بحرالکاہلی آسیلیشن (SOI)ٹ ان عوامل کا تجزیہ مختلف ماڈلز، جیسے "Numerical Climate Models” اور "Dynamical Ocean-Atmosphere Models” کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ ماڈل دنیا بھر سے حاصل شدہ ڈیٹا کی مدد سے اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں کہ آیا ’’ال نینو‘‘ یا ’’لانینا‘‘ کے بننے کا امکان موجود ہے یا نہیں؟ عام طور پر ان مظاہر کی پیش گوئی تقریباً چھے ماہ پہلے تک کی جا سکتی ہے ۔
’’نوا‘‘ (NOAA) کے ایزنو الرٹ سسٹم کے مطابق مارچ 2025ء تک موسمی حالات ENSONeutral یعنی نہ ’’ال نینو‘‘ اور نہ ’’لا نینا‘‘ ہی کے زیرِ اثر رہے۔ تجزیے کے مطابق یہ صورتِ حال اگست 2025ء تک برقرار رہے گی۔ تاہم، اگست سے ’’ال نینو‘‘ کے فعال ہونے کے امکانات 70 فی صد تک بڑھ گئے ہیں، جس کی بنیادی وجہ سمندر کی سطح کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہے۔ اکتوبر سے دسمبر 2025ء کے دوران میں ’’لا نینا‘‘ کے مکمل طور پر فعال ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، جب کہ جنوری سے اگست 2026ء تک ’’لا نینا‘‘ کی شدت برقرار رہنے کی توقع ہے، جو پاکستان اور خطے میں شدید سیلابی حالات کا سبب بن سکتی ہے۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو 2009ء، 2011ء، 2015ء، 2020ء اور 2022ء کے دوران میں دریائے سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں آنے والی تباہ کن سیلابی صورتِ حال درحقیقت ’’لانینا‘‘ کے اثرات کا نتیجہ تھیں، جن سے تقریباً 30 ملین افراد متاثر ہوئے۔ جب ’’ال نینو‘‘ کا مرحلہ فعال ہوتا ہے، تو پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلاب کے امکانات میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں موسمیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) نے ان اثرات کی شدت کو مزید بڑھا دیا ہے، جس کے باعث تباہی کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے ۔
لہٰذا، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’لانینا‘‘ کے فعال ہونے سے قبل ہی موثر حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔ عوام الناس، بالخصوص اُن سیاحوں میں جو طویل عرصے تک پہاڑی علاقوں میں قیام کرتے ہیں، کے لیے آگاہی مہم چلانا نہایت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دریاؤں کے پانی کی سطح کو باقاعدگی سے مانیٹر کرنا چاہیے، تاکہ اچانک طغیانی کی صورت میں عوام کو فوری خبردار کیا جاسکے۔ کیوں کہ ہر بار ایسے حالات میں سیاح اور مقامی افراد سیلابی خطرے کی زد میں آ جاتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










