ایران کی جوابی چال عالمی طاقتوں کے لیے آزمایش

Blogger Hilal Danish

مشرق وسطیٰ ایک بار پھر عالمی خبروں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایران نے امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد آبنائے ہرمز کی بندش کی پارلیمانی منظوری دے کر بین الاقوامی سطح پر ایک غیر معمولی اور نازک صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ یہ فیصلہ فقط ایک مقامی ردِعمل نہیں، بل کہ عالمی توانائی اور معیشت کے لیے ایک سخت چیلنج بن چکا ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ نے 22 جون کو متفقہ قرارداد منظور کی، جس کے تحت سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہے، آبنائے ہرمز کو بین الاقوامی شپنگ کے لیے بند کرسکتی ہے۔
یاد رہے کہ یہ وہی سمندری راستہ ہے، جہاں سے دنیا بھر کے تیل کا تقریباً 20 فی صد روزانہ گزرتا ہے۔
٭ پیش منظر،ایک جوہری ردعمل؟:۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں ایران کی جوہری تنصیبات پر ہونے والے حملوں نے تہران کو عالمی سطح پر شدید دباو کا شکار کر دیا ہے۔ ایران کی جانب سے پارلیمانی سطح پر یہ فیصلہ اس حملے کا ایک ’’تدریجی مگر فیصلہ کن‘‘ جواب تصور کیا جا رہا ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ اگر اس کی سالمیت اور خودمختاری کو چیلنج کیا گیا، تو وہ علاقائی برتری اور جغرافیائی اہمیت کو بہ طورِ ہتھیار استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔
٭ عالمی اثرات، توانائی کی سپلائی پر تلوار:۔ آبنائے ہرمز کی بندش صرف ایک فوجی یا سیاسی قدم نہیں، بل کہ یہ عالمی معیشت پر بہ راہِ راست حملہ ہے۔ عالمی تیل مارکیٹ میں پہلے ہی اضطراب ہے۔ تیل کی قیمتیں 95 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر چکی ہیں اور مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ چین، بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک جو خلیجی تیل پر انحصار کرتے ہیں، اس بندش سے بہ راہِ راست متاثر ہوں گے۔ عالمی سطح پر اشیائے خور و نوش، خام مال اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے، جس سے دنیا بھر میں مہنگائی کی نئی لہر آ سکتی ہے۔
٭ امریکہ کا ممکنہ ردِ عمل، بحری مداخلت؟:۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ وہ آبنائے ہرمز کی بندش کو برداشت نہیں کریں گے۔ امریکی نیوی کی بحرین میں موجودگی اور بحیرۂ عرب میں حالیہ نقل و حرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ فوجی حل کی تیاری کر رہا ہے۔
ایران کی جانب سے یہ قدم دراصل ایک دو دھاری تلوار ہے:
یعنی یا تو دنیا ایران پر پابندیاں نرم کرنے پر مجبور ہو جائے گی، یا پھر مشرقِ وسطیٰ ایک اور بڑی جنگ کے دہانے پر آ کھڑا ہوگا۔
اب سوالات جو سامنے آ رہے ہیں:
٭ کیا عالمی برادری ایران پر مزید دباو ڈالے گی، یا مذاکرات کا دروازہ کھلے گا؟
٭ اگر ایران واقعی آبنائے ہرمز کو بند کرتا ہے، تو کیا یہ ایک عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہو گا؟
٭ کیا اقوامِ متحدہ اس صورتِ حال میں کوئی فعال کردار ادا کرے گی یا خاموش تماشائی بنی رہے گی؟

آبنائے ہرمز کی بندش کی منظوری کوئی معمولی فیصلہ نہیں۔ یہ 21ویں صدی میں توانائی کے بحران، سفارتی تناو اور عسکری تصادم کے ایک ممکنہ طوفان کی پہلی آندھی ہے۔ دنیا کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک نئے سرد جنگی منظرنامے میں قدم رکھنا چاہتی ہے، یا پُرامن سفارت کاری کو فوقیت دے گی۔
ایران کی چال عالمی طاقتوں کے لیے ایک آزمایش ہے اور شاید یہ آزمایش صرف تیل یا فوجی قوت کی نہیں، بل کہ عقل، تدبر اور حکمت کی بھی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے