ہماری ملغوبہ تاریخ اور ریاستی جبر

Blogger Sajid Aman

کہتے ہیں کہ تین وجوہات کی بنیاد پر انگریزوں نے سوات، دیر اور چترال میں بہ راہِ راست حکومت نہیں کی:
٭ پہلی وجہ یہ تھی کہ یہ علاقے بین الاقوامی سیاست میں تذویراتی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔
٭ دوسری وجہ، یہاں ایسے وسائل نہیں تھے، جن کو ایسٹ انڈیا کمپنی یا انگریز لوٹ کر انگلستان لے جاتے۔ اس لیے ریل کی پٹری بھی یہاں تک نہیں بچھائی گئی۔
٭ تیسری وجہ، زار اور بعد میں سوویت یونین کو اعتراض تھا کہ ہماری سرحدوں سے مناسب حد تک دور رہا جائے، ورنہ نورستان واخان سے سارا برصغیر ہمارے نشانے پر ہے۔
انگریزوں نے وزیرستان سے لے کر تمام افغان بارڈر تک رسائی حاصل کی، پٹری بچھائی، کینٹ اور چوکیاں مقرر کیں، مگر ہر جگہ روس سے مناسب حد تک فاصلہ رکھا۔ سوات، دیر اور چترال پر بالواسطہ حکومت کی اور وہی کیا، جو وہ چاہتے تھے۔ یہاں کے لوگوں میں بے اتفاقی، عدمِ اعتماد ا ور زمین کے لالچ جیسی برائیوں کا بیج بو دیا ۔
دیر اور چترال دور اُفتادہ علاقے تھے، وہاں نوابی ریاستیں قائم تھیں۔ اُن کو وظیفہ اور مدد دونوں ملتے رہے، یوں نوابوں کی وفاداری اور عوام کی مکمل بے توجہی انگریزکو بدلے میں ملتی رہی۔
سوات ( سوات، شانگلہ، کوہستان اور بونیر) میں جب بھی میدانی علاقوں سے انگریز حکومت کے باغی گھسے یا یہاں کسی نے انگریز کے خلاف جہاد کی خواہش ظاہر کی، تو انگریز نے بھرپور طریقے سے اُس کو کچل دیا۔ اس کے لیے مقامی حامیوں، مذہبی خانوادے ا ور لالچ پرست خانوں کو استعمال کیا گیا…… مگر انگریز نے ہمیشہ آمدن اور خرچ کو مدِ نظر رکھا۔
تھانہ جو کبھی پختونخوا کا صدر مقام تھا، اُس تک انگریز ضرور پہنچا۔ تھانہ، چکدرہ میں مستقل طاقت اور نظر رکھی اور ملاکنڈ کے پہاڑوں پر بسیرا کیا، جس سے ایک طرف کور آف رائل پنجاب رجمنٹ مردان کو تحفظ حاصل تھا، تو دوسری طرف دیر اور چترال کی ریاستوں پر کنٹرول بھی حاصل تھا۔ اس طرح غیر متحد یوسف زئی قبائل اور غیر یوسف زئی قبائل سوات کی حدود میں اور ایک طرح سے اپنی حدود میں رہے۔
20ویں صدی کے آغاز میں جب انگریز نے مذہبی و سماجی مداخلت کا آغاز کیا، تاکہ اپنی طاقت کو استحکام دے سکے، تو سوویت انقلاب برپا ہوا۔ 20ویں صدی کی پہلی دہائی میں انگریزوں نے سوات کے علاقے کے لیے سوچ لیا تھا کہ جو جیتا، ہم اس کی حمایت کریں گے۔ بعد میں چکدرہ کے مقام پر باچا صاحب کو سوات کا نواب تسلیم کرنا اس کا ثبوت ہے، مگر انگریزوں نے دیر کے نواب سے سلوک کے برعکس سوات کے نواب کو وظیفہ یا امداد دینا مناسب نہیں سمجھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگریز اس کو سمجھوتا سمجھ رہے تھے، معاہدہ نہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ نوابِ دیر کی سوات پر نظر روک دی گئی اور مزید جارحیت کی جگہ بہ ظاہر ایک عدمِ مداخلت کا سمجھوتا ہوگیا، مگر باچا صاحب نے بونیر ، شانگلہ ، اباسین، کوہستان اور سوات کوہستان میں پیش قدمی کی، جس پر انگریزوں نے شدید ردِعمل ظاہر کیا…… مگر ریاستِ سوات کی طرف سے یہ دلیل کہ بونیر کے اندر سے لوگوں نے الحاق کیا ہے۔ ایسا ہی شانگلہ، کوہستانی علاقوں نے بھی کیا ہے۔ سوات کی جغرافیائی سرحدیں وسیع ہوئی ہیں، لیکن یہاں سے انگریزوں کے خلاف بغاوت کے دروازے بھی بند ہوئے ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد ریاستِ پاکستان کی پالیسی ویسی ہی رہی۔ سوویت یونین کا خوف، ’’شمال مغربی سرحدی صوبہ‘‘(اب خیبر پختونخوا) اور بلوچستان کو ترقی، تعلیم اور شعور دینے سے یہ پالیسی مانع رہی اور پھر نئی اصطلاح ’’تذویراتی گہرائی‘‘ نے زمینی حقائق کو سرے سے تبدیل کر دیا۔
دہائیوں سے یہ علاقے افغان جنگ کا بیس کیمپ رہے اور سوویت یونین کے زوال کے بعد واحد سپر پاؤر (امریکہ) جب یہاں پہنچی، تو بات ’’پانچوں گھی میں اور سر کڑاھی میں‘‘ کے مصداق بن گئی۔ یہاں کی معیشت، جنگی معیشت میں تبدیل ہوگئی۔ افرادی قوت جنگی پیادہ قرار پاگئی۔ ریاست کا رویہ انتہائی جارحانہ ہوگیا۔ آپریشن پر آپریشن اور بیانیے سے اختلاف پر مزاحمت، ریاستی پالیسی بن گئی۔ ایسا تمام افغان سرحدی علاقوں میں کیا گیا۔ انگریزوں کے برعکس اب یہاں وسائل بھی بہت تھے اور سوویت یونین کا خوف بھی ختم ہوگیا تھا۔ ریاست کو پکارنے یا للکارنے والا اہم ہوا، باقی عوام جنگ کے رحم و کرم پر رہ گئے۔
آج پنجاب اور سندھ کے کچے کے علاقوں میں ریاستی رٹ کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، مگر ریاست کو غصہ آتا ہے، نہ وہاں کوئی سنجیدہ آپریشن ہوتا ہے اور نہ میڈیا ہی اس حوالے سے بات کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
تاریخ کے جبر کے شکار یہ علاقے بھی ہیں اور وڈیروں کے ظلم کا شکار وہ علاقے بھی…… مگر ریاست کا رویہ دونوں علاقوں کے لیے مختلف ہے۔
تاریخ میں ان باتوں کی واضح طور پر نشان دہی ہوگی۔ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی، موقع ضرور دیتی ہے کہ انصاف کرو، ورنہ تاریخ تو اپنی طرف سے انصاف کرتی ہی ہے۔ چلیں، یہ انصاف بھی وقت اور تاریخ ہی پر چھوڑتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے