کامریڈ رحیم داد (استاد صاحب)

Blogger Sajid Aman

کچھ لوگ ہوتے ہیں، جن کو بہت کچھ آتا ہے اور کچھ لوگ ہوتے ہیں، جن کو غصے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔
کامریڈ رحیم داد اُستاد صاحب زندہ رہنا جانتے تھے…… اور بہتر زندگی کیا ہے؟ اس کی اجتماعی راحت عام لوگوں تک پہنچنے کی تدابیر کرتے رہے۔
کامریڈ رحیم داد استاد صاحب کو بہت کچھ آتا تھا، مگر جو نہیں آتا تھا، وہ غصہ تھا۔ 14 اپریل 2019ء کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
ایک معلم، دانش ور، ایک سیاسی کارکن، خدائی خدمت گار اور ایک نظریاتی انسان، جو اپنی پوری زندگی غیر مُراعات یافتہ، مزدور اور محنت کش طبقے کے لیے جد و جہد میں گزار گئے۔ اُن کا کام شعور دینا تھا اور اس میں اُنھوں نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔
عوامی نیشنل پارٹی سے جب افراسیاب خٹک، لطیف آفریدی اور مختیار ایڈوکیٹ نے راہیں جدا کیں، تو اُستاد صاحب بھی قوم پرستی کو خدا حافظ کَہ کر نظریاتی لوگوں کے ساتھ جدا ہوگئے۔ فانوس گجر اور عوامی نیشنل پارٹی میں موجود ہر طبقاتی جد و جہد پر یقین کرنے والا اُن کے ساتھ الگ ہوا۔ پشاور میں ’’قومی انقلابی پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی، جس کے پہلے جلسے سے فلسفی شاعر اور باچا خان کے بیٹے غنی خان نے بھی خطاب کیا۔
بدقسمتی سے ’’قومی انقلابی پارٹی‘‘ زیادہ دیر چل نہ سکی اور اس کی کوکھ سے پھر ایک قوم پرست جماعت ’’پختونخوا قومی پارٹی‘‘ نے جنم لیا۔ فانوس گجر جیسے نظریاتی لوگ چھوڑ کر چلے گئے، مگر افضل خان لالا جیسے بڑے قوم پرست رہ نما شامل ہوگئے۔ کامریڈ رحیم داد اُستاد صاحب اس پورے عمل میں جذباتی اور سرگرم ضرور تھے، مگر شاید مطمئن نہیں تھے۔ اُنھوں نے سوات بھر سے ترقی پسند ساتھیوں کو جمع کیا۔ پہلے منگلور (گاؤں) اور پھر مینگورہ (شہر) میں طویل مکالمے کیے۔ اُن کے کچھ اپنے بنیادی سوالات تھے اور کچھ دوسرے لوگوں تھے، جن کے جوابات اُن کے علاوہ سب کو چاہیے تھے۔ ان میں چیدہ چیدہ سوالات کچھ یوں تھے:
٭ پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟
٭ بائیں بازو کے ساتھی متحد کیوں نہیں ہو پاتے؟
٭ بائیں بازو کے لوگ محنت کش، مزدور اور محکوم لوگوں کی بات کرتے ہیں…… مگر یہ طبقات بائیں بازو کے لوگوں پر اعتماد تو کیا قریب بھی کیوں نہیں آتے؟
٭ مذہب بے زاری اور بائیں بازو کے درمیان تعلق فطری ہے یا غیر فطری؟
٭ لبرل ازم نے بائیں بازو میں گھس کر تحریک کو کتنا نقصان پہنچایا ہے؟
٭ جب مذہب استحصال کی مذمت کرتا ہے، بائیں بازو بھی استحصال کے خلاف ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ استحصالی طبقات نے مذہبی لبادہ اوڑھ لیا ہے اور عام شخص مذہب کے احترام میں استحصال کا جرم معاف کر دیتا ہے؟
یہ اور ان جیسے مزید کئی سوالات پر گھنٹوں باتیں ہوئیں ، تقاریر ہوئیں اور مقالے پڑھے گئے۔ تجاویز طلب کی گئیں۔ کسی سے سماجی زندگی میں گھس کر پیغامات پہنچاتے رہنے کی بات کی گئی۔ کسی نے کہا پارلیمانی سیاست کو نظر انداز کرکے ایک فکری تحریک چلائی جائے۔ کسی نے رائے دی کہ ’’سماجی خدمات جیسی سوشل سروسز جمع سیاسی پارٹی ٹائپ تنظیم‘‘ بنائی جائے اور اس طرح لوگوں کے درمیان پہنچ کر استحصال اور انقلاب پر بحث کی جائے۔ کسی کی رائے تھی کہ خالص سیاسی تحریک ٹھیک ہے۔ وسائل نہیں، مگر چھوٹے پیمانے پر سیاسی جد و جہد جاری رکھی جائے۔
آخری سیاسی دور میں اصغر خان صاحب کے بیٹے عمر اصغر خان نے پارٹی میں شرکت کی۔ موصوف قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں اقتصادیات، فلسفہ اور سیاسیات پڑھاتے تھے۔ اُنھوں نے ’’سنگی‘‘ نام کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی بنیاد رکھی، جسے مقامی سطح پر ’’طبی سہولیات‘‘، ’’جنگلات کے تحفظ‘‘، ’’خواتین کو بااختیار بنانا اور دیگر اچھے کئی کاموں کے لیے جانا جاتا ہے۔ بعد میں اُنھوں نے ’’قومی جمہوری پارٹی‘‘ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کی۔
عمر اصغر خان سے ملاقات نے کامریڈ رحیم داد اُستاد صاحب پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ اُن کی قابلیت، واضح وِژن، اہداف اور مقاصد سے بہت متاثر ہوئے۔ اُن کے ساتھ سیاسی اور سماجی جد و جہد کا آغاز کیا، مگر یہ عرصہ بڑا مختصر رہا۔ بدقسمتی سے 25 جون 2002ء کو کسی نے عمر اصغر خان کے گھر میں گھس کر اُن کو اُن کے کمرے کے اندر بے دردی سے قتل کردیا۔ یہ اندھا قتل آج بھی ریاست اور قانون کا منھ چڑا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا کہ اُن سے ڈر کر استحصالی طبقات نے اُن کو راستے سے ہٹایا تھا۔
عمر اصغر خان کے جنازے کے ساتھ اُن کے نظریات، قابلیت، جد و جہد، پارٹی اور نصب العین کا بھی جنازہ نکل گیا۔
اس قتل کا کامریڈ رحیم داد اُستاد صاحب پر گہرا اثر ہوا۔ وہ ایک طرح سے غیر سیاسی ہوگئے…… مگر سیاسی طبیعت کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد ایک بار پھر سرگرم ہوگئے۔ یقینا وہ ظالم نظام کے خلاف خاموش نہیں بیٹھ سکتے تھے۔
2007ء تا 2010ء شورشِ سوات کے دوران میں کامریڈ رحیم داد اُستاد صاحب پر سخت وقت آیا۔ اُنھوں نے اپنا آبائی گھر چھوڑا۔ اُن کی شریکِ حیات بھی اُنھیں داغِ مفارقت دے گئی۔ وہ ایک اچھے والد، اچھے استاد، اچھے معلم اور ایک اچھے مخلص کارکن تھے۔ وہ سماجی زندگی میں خامیوں پر بھی کھل کر بات کرتے تھے۔ ایک بار کسی نے اُن کے سامنے کہا کہ فُلاں نے غصے میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اب حلالہ کے چکر میں ہے……! تو اُنھوں نے برجستہ کہا کہ حلالہ اُس شخص کے ساتھ ہونا چاہیے، مظلوم خاتون کے ساتھ نہیں…… تاکہ یہ آیندہ آپے میں رہے۔
کامریڈ رحیم داد اُستاد صاحب کے انتقال نے ترقی پسند ساتھیوں میں مایوسی کی لہر دوڑا دی۔ وہ خاموشی سے منوں مٹی تلے دب گئے، مگر خطے میں ظلم، استحصال، جبر، غلامی، نسلی امتیازا ور جنسی امتیاز قائم ہیں۔ یہاں انسان تاریخی جبر کا شکار ہے۔
امید ہے کہ کسی دن بہ قولِ فیضؔ
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے