کبھی خواب نہ دیکھنا (چوبیس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

سابق ریاست میں کوالٹی کنٹرول کا ایک بہت موثر نظام تھا، جس پر اگر حقیقتاً عمل کیا جاتا، تو بڑی کامیابی حاصل ہوتی۔ لیکن کچھ بے پروا عناصر نے اپنے عامیانہ مفادات کے لیے اس ’’سیٹ اَپ‘‘ کو سبوتاژ کیا۔ مثال کے طور پر، ہر تحصیل دار کو تحریری ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں ریاستی منصوبوں کے معیار کی جانچ کریں۔ اسی طور حاکموں کو وقتاً فوقتاً دورے کرنے اور حکمران کو کام کی پیش رفت اور معیار کی اطلاع دینے کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ بدقسمتی سے میرے دورِ ملازمت میں چکیسر کے حاکم پیرانہ سال اور ضعیف تھے۔ اس لیے مجھے ہر مہینے میں کم از کم 15 دن وہاں رہنا پڑتا تھا۔
پچھلے شاہی دورے کے دوران میں حاکم نے والی صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ انھیں ان کی ذمے داریوں سے سبک دوش کر دیں۔ والی صاحب نے ایک سال مزید ذمے داری اٹھانے کا کہا۔ حاکم نے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مجھے چکیسر سے مردہ لے جایا جائے، تو ٹھیک ہے۔ اس پر والی صاحب ہنس پڑے، مگر انھیں رہنے پر راضی کرلیا۔
چکیسر میں میرے رشتہ دار ڈاکٹر سلطان محمد کا تبادلہ رانولیہ، انڈس کوہستان ہوگیا اور مَیں اکیلا رہ گیا۔ لیکن القموت خان، جسے ’’اکو‘‘ کہا جاتا تھا، نے وہاں میرے قیام کو ہر ممکن طریقے سے آسان بنانے میں میری مدد کی۔ وہ لفظ ’’پختون‘‘ کی تمام تر جہتوں میں ایک حقیقی پختون تھے۔ ان کے بیٹوں حیات خان اور شیر محمد خان نے بھی میری ہر ممکن مدد کی۔ میرے ایک اور اچھے دوست سید طہار تھے جو بعد میں ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان بن گئے۔ اس کے علاوہ سوات سے تعلق رکھنے والے دو عظیم ماہرینِ تعلیم میرا ساتھ دینے کے لیے وہاں موجود تھے۔ وہ کالا کلی، تحصیل کبل کے سید علی شاہ اور قمبر کے رشید احمد تھے۔
لیکن مجھے پروفیسر ہمایوں خان، اقبال خان اور قاضی حسین احمد کی صحبت یاد آتی۔ کالج کالونی میں ہم نے ایک ساتھ کئی خوش گوار شامیں گزاری تھیں۔ مَیں جب بھی چکیسر ڈیوٹی سے واپس آتا، تو کالج کالونی میں ہمایوں خان کی رہایش گاہ پر جاتا اور اکثر رات کو وہیں رہ جاتا۔ حالاں کہ افسر آباد میں میرا گھر 5 منٹ کی ’’واک‘‘ پر تھا۔ اَب ہمارا دفتر میرے گھر کے بالکل نیچے تھا۔ میرے پاس محکمے کے معاملات آسانی سے چلانے کے لیے اس وقت تمام سہولیات موجود تھیں۔
مجھے امید تھی کہ چکیسر میں 10 بستروں کا ہسپتال مکمل ہونے پر ریاست کے میدانی علاقوں میں میرا تبادلہ ممکن ہوجائے گا، لیکن ایک نئے منصوبے کی منظوری دی گئی۔ اس منصوبے میں ایک کورٹ، مہمانوں کے لیے کمروں اور حاکم کے لیے نئے مکان کی تعمیر شامل تھی۔ ٹینڈر نکالے گئے اور سیدو شریف کا امیر محمد ٹھیکا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس امر نے میرے قیام کو غیر معینہ مدت کے لیے طول دے دیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے