ناول ’’شاکاہاری‘‘ (تبصرہ)

Blogger Danish Mirza

تبصرہ نگار: دانش مرزا
’’شاکاہاری‘‘ جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والی،نوبیل انعام یافتہ ادیب ’’ہان کانگ‘‘ کے ناول "The Vegetarian” کا اُردو ترجمہ ہے۔ جسے اسماء حسین نے انگریزی ترجمہ سے اُردو روپ دیا ہے۔
ناول کا ترجمہ پڑھنے میں رواں ہے اور الفاظ کا بہترین استعمال کیا گیا ہے۔ مَیں نے اسے تین نشستوں میں پڑھ ڈالا۔
اب آتے ہیں اس ناول کی کہانی اور موضوع کی طرف۔ ’’شاکاہاری‘‘ اپنے قارئین کی سوچ کو جھنجھوڑنے والا ناول ہے، جو اپنی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی اور کثیر الجہتی کہانی کے ذریعے شناخت، صدمے اور سماجی توقعات جیسے موضوعات کو اُجاگر کرتا ہے۔ یہ کہانی جنوبی کوریا کی ایک بہ ظاہر معمولی عورت ’’یونگ ہی‘‘ کے گرد گھومتی ہے، جو ایک پریشان کن خواب کے بعد گوشت کھانے سے انکار کرکے اپنے خاندان کو حیران کر دیتی ہے۔ اس کی خاموش بغاوت ان کے قریبی رشتوں میں ہلچل مچا دیتی ہے اور ان کی دبائی ہوئی خواہشات، مایوسیوں اور چھپی ہوئی جارحیت کو بے نقاب کرتی ہے۔
یہ ناول تین حصوں میں تقسیم ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف کردار کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔ یونگ ہی کا شوہر، اس کا بہنوئی اور اس کی بہن۔ ان نقطہ ہائے نظر کے ذریعے ہان کانگ ہر کردار کی نفسیاتی اور جذباتی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتی ہیں، جب کہ یونگ ہی خود ایک پراسرار اور الم ناک شخصیت بنی رہتی ہے۔ کہانی کا اندازِ تحریر مختصر مگر شاعرانہ ہے، جو خواب ناک تشبیہوں کو حقیقت کی تلخی کے ساتھ ملا کر ایک غیر یقینی اور اجنبی ماحول پیدا کرتا ہے۔
ہان کانگ صنفی کرداروں اور سماجی اصولوں کی پابندیوں کا جائزہ لیتی ہیں۔ یونگ ہی کی ’’ویجیٹیرین ازم‘‘ کو ذاتی بغاوت کے عمل اور گہرے وجودی جد و جہد دونوں کے استعارے کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ یہ ناول انسانی جسم کو ضبط، خواہش اور مزاحمت کی جگہ کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔
اب ’’شاکاہاری‘‘ کے ابتدائی باب سے دو پیراگراف بہ طورِ نمونہ پڑھیں:
’’جب تک میری بیوی شاکاہاری نہیں ہوئی تھی، مَیں اُسے ایک معمولی عورت سمجھتا تھا، ہر لحاظ سے انتہائی معمولی عورت۔ سچ کہوں، تو جب مَیں اُس سے پہلی بار ملا، تو مجھے اُس میں رتی بھر کشش محسوس نہیں ہوئی۔ درمیانہ قد، باب کٹ بال نہ زیادہ لمبے نہ زیادہ چھوٹے، یرقان زدہ سی بیمار جلد، اُبھری ہوئی رُخساروں کی ہڈیاں۔ اُس کے ڈرے سہمے، زرد چہرے نے مجھے اُس کی شخصیت کے بارے میں وہ سب کچھ بتا دیا، جو مجھے جاننے کی ضرورت تھی۔ جیسے ہی وہ میز کے پاس آئی، جہاں میں بیٹھا اُس کا انتظار کررہا تھا، مَیں اُس کے جوتوں پر توجہ دیے بغیر نہیں رہ سکا۔ سادہ ترین سیاہ جوتے۔ اور اُس کی وہ چال…… نہ تیز نہ آہستہ، قدم نہ زیادہ بڑے نہ چھوٹے۔‘‘
’’لیکن اگر اُس میں کوئی غیر معمولی خوبی یا کشش نہیں تھی، تو کوئی خامی بھی نہیں تھی۔ لہٰذا شادی نہ کرنے کے لیے بھی ہم دونوں کے پاس کوئی وجہ نہ تھی۔ ایسی جامد شخصیت کی عورت جس کی ذات میں مجھے کوئی تازگی، دل کشی یا خوبی نظر نہ آتی تھی، میرے لیے نہایت موزوں تھی۔ اُس کا دل جیتنے کے لیے مجھے بہت پڑھا لکھا نظر آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس بات کی بھی پریشانی نہیں تھی کہ وہ میرا موازنہ ماڈلنگ کرنے والے خوش شکل اور خوش لباس مردوں کے ساتھ کرے گی۔ مَیں اگر کبھی کسی ملاقات پر دیر سے پہنچتا، تب بھی وہ شکوہ شکایت نہیں کرتی تھی۔ میری توند 25، 26 برس کی عمر میں ہی باہر نکلنے لگی تھی۔ پتلی ٹانگوں اور بازوؤں نے تمام کوششوں کے باوجود فربہ ہونے سے قطعاً انکار کردیا تھا۔ اپنے عضوئے تناسل کے سائز کی وجہ سے میں احساسِ کم تری میں مبتلا تھا…… لیکن مجھے یقین تھا کہ ان مسائل کی وجہ سے مجھے اس کی طرف سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘
میرا مشورہ ہے، جس نے ابھی تک یہ ناول نہیں پڑھا، ضرور پڑھے۔ اسے مکتبۂ دانیال کراچی نے شائع کیا ہے۔
اُن کا رابطہ نمبر 02135681457 ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے