اختلافِ رائے اور احتجاج کے نام پر بدتہذیبی، عدم برداشت، گالم گلوچ ایسی تلخ چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں، جس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ مذہبی فرقہ پرستی اور فرقہ واریت کا شکار پاکستانی معاشرہ سیاسی شخصیت پرستی اور سیاسی فرقہ پرستی کی دلدل میں ڈوب چکا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے پیروکاروں نے اپنی اپنی قیادت کو بتوں کی شکل دی ہوئی ہے۔ خدا نہ خواستہ عبادت کرنا باقی رہ گیا ہے۔ چاہے قیادت میں جھوٹ، چوری چکاری، کرپشن، وعدہ خلافی، غیر اخلاقی اقدار کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوں، مگر مجال ہے کہ اپنی قیادت کے خلاف ہونے والی جائز تنقید کو برداشت کرسکیں۔ جمہوریت کا مطلب ہرگز ایسا تو نہ تھا کہ اپنے خلاف ہونے والی تنقید اور اختلاف رائے کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا جائے؟
آج احتجاج کے نام پر کسی کی فیملی، چادر اور چار دیواری محفوظ نہیں رہی۔ کبھی کسی کو سرِراہ روک کر گالم گلوچ کی جاتی ہے، تو کبھی کسی کے گھر کا محاصرہ کیا جاتا ہے۔ یہ کیسی احتجاجی سیاست ہے کہ خانہ کعبہ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم اور میدانِ عرفات ایسی مقدس سرزمین بھی گندی سیاست سے محفوظ نہیں رہی۔
گذشتہ دنوں برطانوی تعلیمی درس گاہ میں سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں رکھی گئی تقریب کے موقع پر وہاں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے احتجاج کے نام پر بے ہودہ ہلڑ بازی، گالی گلوچ اور طوفانِ بدتمیزی بپا کیا گیا۔ یاد رہے رواں برس فروری میں جب جسٹس اطہر من اللہ برطانیہ میں ’’لندن سکول آف اکنامکس‘‘ میں ’’فیوچر آف پاکستان کانفرنس‘‘ میں بہ طورِ مہمان شریک ہوئے تھے، تو اُس وقت ان کو بھی ہراساں کیا گیا تھا۔ دیارِ غیر میں اپنے ہی پاکستانی شہریوں کے خلاف سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بے ہودہ احتجاج پر پاکستانی ذی شعور عوام شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ویسے حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس عمر کے لڑکے لڑکیاں لندن کی سڑکوں پر اپنے مخالفین کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے، ٹھیک اُسی وقت ان کے لیڈر کے بیٹے اور بیٹی لندن کی پُرفضا ہواؤں میں سکون کی نیند سو رہے تھے، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی قائد کی اولاد بھی ان کے ساتھ مل کر احتجاج کرتی دِکھائی دیتی۔
سوشل میڈیا پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو زومبیوں اور کتوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ پہلے مَیں بھی حیران تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو کتوں سے کیوں تشبیہ دی جارہی ہے؟ مگر کتوں کی درجِ ذیل عادات کے مشاہدے کے بعد سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کی سمجھ آنا شروع ہوئی۔
کتوں کو گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے اور بھونکتے اکثر افراد نے دیکھا ہوگا۔ گلی محلہ کی نکڑ پر بیٹھے کتے کے سامنے سے جب کوئی سائیکل، موٹر سائیکل یا کارگزرتی ہے، تو کتا اس کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہے اور اپنی فطرت کے عین مطابق بھونکتا چلا جاتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھا مسافر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے اور چند فرلانگ کے بعد جب کتا گاڑی کی رفتار کو نہیں پکڑپاتا، تو چار و ناچار اپنی اُسی جگہ پر آکر براجمان ہوجاتا ہے۔ پھر ایک اور گاڑی گزرتی ہے، تو کتا اس کے پیچھے چل پڑتا ہے…… یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ کتے گاڑیوں پر چڑھ دوڑنے اور بھونکنے کو اپنا مقصدِ عظیم سمجھ کر یک سوئی سے ادا کرتے ہیں۔ یاد رہے گاڑیوں کے پیچھے بھاگنا اور بھونکنا کتوں کا محبوب مشغلہ قرار پاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک تجزیہ کار نے بہ طورِ طنز قرار دیا ہے کہ بھونکنا ہر کتے کا پیدایشی اور جبلی حق ہے۔ کتوں کے بھونکنے کے حق کی نفی کھلی فسطائیت قرار پائے گی۔ لہٰذاکتوں کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اور انسانوں کو اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہنا چاہیے۔ کتے تاریخ نہیں پڑھتے۔ ایسا کرتے، تو گاڑیوں اور انسانوں کے پیچھے بھاگنا اور بھونکنا کب کا ترک کرچکے ہوتے۔ کیوں کہ تاریخ میں ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ کوئی کتا اس مشق سے کوئی تبدیلی لے آیا ہو۔
اُس تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ یہ پوسٹ محض تاریخ سے سبق نہ لینے کی روش کے بارے میں ہے۔ کتوں کے ’’بھونکنے کے حقوق‘‘ کی نفی نہیں۔ ہم ’’حقوقِ سگاں‘‘ کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔
بہ ہرحال تنقید اور اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن قرار پاتا ہے۔ شدید ترین مخالف کی تنقید اور طنز کا جواب احسن انداز سے کیسے دیا جاسکتا ہے؟ اس کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ انتخابی مہم کے دوران میں برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل کا گزر ایک ایسی تنگ گلی سے ہوا، جہاں بہ یک وقت دو آدمی نہیں گزر سکتے تھے۔ مخالف سمت سے ایک حزبِ اختلاف کا لیڈر آدھمکا۔ دونوں ایک دوسرے کودیکھنے لگے۔ مخالف لیڈر نے کہا کہ مَیں گدھوں کوراستہ نہیں دیتا۔ ونسٹن چرچل نے خود کو سمیٹ کر اسے راستہ دیتے ہوئے کہا: ’’لیکن میں دے دیا کرتا ہوں!‘‘
پاکستانی شہری اپنے پسندیدہ قائدین سے کتنی محبت کرتے ہیں؟ اس کا اظہار گاہے بہ گاہے دیکھنے کو ملتا رہتا ہے کہ کس طرح ان کے لیڈر پر ہونے والی مثبت تنقید پر ان کے پیروکار مخالف سیاسی لیڈرشپ اور عام افراد کو ماں بہن کی ننگی گالیاں نکالتے دِکھائی دیتے ہیں…… مگر دوسری طرف ایسی ڈھیر ساری مثالیں موجود ہیں کہ ایک دوسرے کو لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے دار آج کل ہم نوالہ و ہم خیال ہیں۔ ’’ڈیزل ڈیزل‘‘ کے نعرے مارنے والے اُسی کی امامت میں نمازیں ادا کرتے دِکھائی دیئے ۔ ’’پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو‘‘ کو اپنا وزیرِاعلا بناتے وقت لیڈر نے شرم محسوس نہ کی۔ میری نظر میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنی اصلاح اور پھر اپنے پیروکاروں اور ہم نواؤں کی تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ تنقید اور اختلافِ رائے کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنائیں۔
ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان ہم سب کا ہے، لیکن اگر پھر بھی کوئی اختلافِ رائے کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنائے رکھنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے صرف یہی جملہ کہنا کافی ہوگا کہ کتوں کے بھونکنے سے گاڑی نہیں رُکتی!
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔