وادئی کیلاش کے مشہور تہوار

Blogger Khalid Hussain

مَیں پہلی بار سنہ 1990ء کی دہائی کے آخر میں وادئی چترال میں موجود اس دل چسپ وادی یعنی کیلاش ویلی گیا تھا۔ اُس وقت بھی اِس کی سڑک کی حالت دگرگوں تھی اور آج بھی اس سڑک نما راستے کا کم و بیش وہی عالم ہے۔ وہی بے ڈھنگی چال ہے، جو پہلے تھی، سو اَب بھی ہے۔ پہلے کی طرح اس بار بھی سنا ہے کہ ان کے لیے اس سڑک کو کشادہ کر کے نئے سرے سے بنائے جانے کی نویدِ جاں فزا ہے۔ قرائن و آثار بتاتے ہیں کہ اس بار شاید اُن کی سنی جائے گی۔ کیوں کہ ’’ایون‘‘ سے آگے ’’دوباش پُل‘‘ کے پاس کچھ سڑک بنانے والی مشینری کھڑی دکھائی دی تھی۔ دوباش پُل سے بمبوریت کی طرف جاتی بقیہ 19 کلومیٹر سڑک کا ابتدائی کچھ حصہ کشادہ تھا، جسے دائیں جانب موجود پہاڑ کو توڑ کر کشادہ کیا گیا تھا۔ جب کہ اس سے آگے بقیہ ساری سڑک کی حالت پتلی، بل کہ پتلی پتنگ تھی۔ ’’آنش گاؤں‘‘ سے پہلے اور پھر اُس کے بعد والی سڑک تنگ ہونے کے ساتھ ساتھ کیچڑ اور گارے سے لت پت بھری پڑی تھی۔
ویسے تو اَب ڈھیر سارے کیلاشی ہجرت کرکے پاکستان کے بڑے شہروں میں آن بسے ہیں، مگر جو ابھی تک وہاں پر رہایش پذیر ہیں، اُن کی غربت و امارت کا اندازہ اب بھی اُن کے مال مویشی سے کیا جاتا ہے۔ جس کے پاس جتنے مال مویشی زیادہ ہوتے ہیں، وہ اتنا ہی بڑا اور معتبر جانا جاتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر بکریاں اور گائے پالتے ہیں۔ ان کی عورتیں ان مویشیوں کو لے کر صبح صبح اپنے اپنے کھیتوں میں چلی جاتی ہیں اور سارا سارا دن وہاں کھیتی باڑی بھی کرتی رہتی ہیں۔ انھیں چراتی پھرتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں۔
2013ء میں، مَیں نے اپنے کھیتوں کو جاتی ایک ایسی ہی کیلاشی عورت کی تصویر بنائی تھی۔ اس بار وہ تصویر میں نے ’’کراکال گاؤں‘‘ کے باہر ایک دکان دار کو دکھائی، تو وہ کہنے لگا کہ آپ کو پتا ہے کہ یہ عورت کون ہے؟ مَیں نے جواباً کہا کہ مجھے کوئی علم نہیں۔ مَیں نے تو اس وقت یوں ہی اس عورت کو اس کی تصویر بنانے کی ’’ریکویسٹ‘‘ کی، تو اس نے رضا مندی ظاہر کر دی تھی، اور مَیں نے اس کی یہ تصویر بنا لی۔ دکان دار کہنے لگا کہ یہ تصویر شہزادہ خاں کی والدہ کی ہے۔ وہ اب بھی زندہ ہے اور اوپر اپنے گھر پر ہے۔
شہزادہ خاں، جنرل مشرف کا بڑا یار تھا۔ جنرل مشرف جب بھی یہاں آتا تھا، اُسی کے پاس ٹھہرتا تھا۔ جنرل مشرف بھی کیلاشیوں کے ’’انگور پانی‘‘ کا شیدا تھا۔ بس اس سے زیادہ آگے میں کچھ نہیں لکھ سکتا۔ ایک بار تو مَیں نے سوچا کہ اُن کے پاس جا کر اُنھیں یہ تصویر دکھا کر آؤں، مگر یہ گاؤں چوں کہ مسلسل چڑھائی پر پہاڑ کی طرف اُٹھتا اونچے سے اونچا ہوتا جاتا ہے اور اب میری ٹانگوں میں اتنی سکت نہیں۔ اس لیے میں اونچائی کی طرف مسلسل اُٹھتا جاتا تھوڑا سفر طے کر کے وہاں جا کر بیٹھ گیا اور پھر اس سے آگے نہ جا سکا تھا۔
خیر، اس انگور پانی کی آفر مجھے بھی ہوئی تھی، جب میں یہاں پہلی بار آیا تھا۔ اُس وقت میرے ساتھ میرے مرحوم دوست جعفر رشید صاحب بھی تھے۔ اُس وقت بھی ہم اسی فرنٹیئر ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ اس ہوٹل کا مالک بابا شکر ولی ہے، جسے اب شکور ولی بھی لکھ رہے ہیں۔ اس بار میں نے اس شکر ولی اور شکور ولی نام کی وضاحت چاہی، تو بابا شکر ولی کچھ خاص وضاحت نہ دے سکے۔ اُن کا ایک بڑا بھائی بھی اس وقت ہمیں ملا تھا، جس کا نام زر ولی تھا۔
خیر، بات ہو رہی تھی انگور پانی کی۔ اُس وقت ہم صبح صبح پیدل چل کر اوپر کی طرف اس وادی کے آخری گاؤں ’’شیخان دیہہ‘‘ کی طرف نکلے تھے۔ دھوپ بہت تیز تھی۔ ہمیں پسینا آ رہا تھا۔ اس وقت وادی میں بہت تھوڑے ہوٹل ہوا کرتے تھے۔ چلتے چلتے رستے میں الیگزینڈریا ہوٹل آیا، تو ہم اس ہوٹل کے اندر چلے گئے۔ ہوٹل کے لان میں دریائے بمبوریت کے کنارے ایک درخت کے نیچے لکڑی سے بنا ایک چورس تختہ سا بنا کر رکھا ہوا تھا، جس پر چاروں کونوں میں چار عدد تکیے بھی رکھے ہوئے تھے۔ ہم اس تختے پر جا کر لیٹ گئے۔ ہوٹل میں موجود بیرا ہمیں تکتا ہوا ہماری طرف آیا اور آ کر انگور پانی کی آفر کی۔ اس کے علاوہ بھی اس نے تین چار نشہ آور مشروبات آفر کیے، جو مختلف پھلوں سے مقامی طور پر تیار کیے جاتے تھے۔ مثلاً: شہتوت، خوبانی اور سیب وغیرہ سے۔ جواب میں، مَیں نے اُسے کہا کہ وہ ہمیں کوئی ایسا مشروب لاکر دے سکتا ہے کہ جو نشے سے پاک ہو؟ تو اُس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ پھر بات بلآخر کوک پر جا کر ختم ہوئی…… اور ہم نے اُس سے کوک کی بوتلیں منگوا کر نوش کیں۔
انگور پانی جیسے مقامی تیار کیے جانے والے شراب نما مشروبات کیلاشیوں کے ہر ہر ایونٹ کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ وہ ایونٹ چاہے خوشی کا ہو یا غم کا۔
اُن دنوں باقی دنیا سے کٹ کر، چھپ کر رہنے والے اُن کیلاشیوں نے اپنی الگ دنیا ترتیب دی۔ اُس میں مختلف تہوار ترتیب دے کر اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ سال بھر مختلف قسم کے تہوار مناتے رہتے تھے، جن کی تعداد 10 سے بھی زائد ہوا کرتی تھی۔ یہ اپنی غمی کے لمحات کو بھی رنگین بنا لیتے تھے۔ خوشی و غمی دونوں مواقع پر انگور پانی ان کے تہواروں کا لازمی جزو ہوا کرتا تھا۔ جو اَب تک ہے، مگر اب تہواروں کی تعداد کم ہو کر تین چار تک محدود ہو کر رہ گئی ہے:
نمبر ایک:۔ چلم جوش، چلم جوشٹ یا جوشی۔
نمبر دو:۔ اچھالی، اچھال یا اچال۔
نمبر تین:۔۔ روغلید۔
نمبر چار:۔ چوموس، چترماس یا چاؤموس۔
کالاشی صدیوں پرانے اپنے خاص کلچر اور رہن سہن کے طریقوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ جو لوگ دنیا کے سب سے پرانے کلچر اور رہن سہن کو دیکھنے کے شوقین ہیں، اُن کے لیے یہ علاقہ خصوصی دل چسپی کا حامل ہے۔
یہ وادئی چترال کی سب سے دل چسپ وادی اور اس علاقے کا سب سے بڑا ٹورسٹ سپاٹ ہے۔ ان لوگوں نے اپنے ہزاروں سال پرانے کلچر کو ابھی تک کسی نہ کسی طرح سے محفوظ کر رکھا ہے۔ ابھی 20، 25 سال قبل تو اس وادی میں داخل ہونا گویا 4 ہزار سال قدیم دور میں داخل ہونے جیسا تھا۔ ہوٹل بہت کم کم تھے۔ دریائے بمبوریت کی دائیں جانب موجود پہاڑ پر تھوڑا اوپر جا کر چٹانوں کے اندر مکانات ٹنگے ہوئے نظر آتے تھے۔ صرف کراکال گاؤں ہی نیچے سڑک کنارے ہوتا تھا۔ پرانا ’’شیخاں دیہہ‘‘ بھی اس موجودہ شیخاں دیہہ سے آگے جا کر دریا کے ساتھ اُوپر کی طرف اُٹھتا جاتا لکڑی سے بنی عمارتوں پر مشتمل ہوتا تھا۔
اب تو پھر بھی یہاں کچھ تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ سنہ 70ء، 80ء کی دہائی کے بعد پوری دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ خالی الیکٹرونک کے شعبے کو ہی لے لیجیے۔ جب ٹیپ ریکارڈ ہوتے تھے، جن میں چندہ بیٹری سیل ڈالے جاتے تھے، اور پھر کیسٹ پلیئر ڈال کر موسیقی سنی جاتی تھی۔ پھر وی سی آر آیا۔ اُس کے بعد س ڈی پلیئر، وی سی پی، ڈش انٹینا، کمپیوٹراور پھر کیبل نیٹ ورک۔ موبائل نے آ کر تو اس دنیا کو جادو نگری میں تبدیل کر دیا ہے۔ آپ جہاں جاتے ہیں، آپ کی کال آپ کا پیچھا کرتی وہاں تک آپ کے پیچھے آپ تک پہنچ جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ بس اس علاقے میں موبائل سروس ہونی چاہیے۔ اسی میں سی ڈی پلیئر، وی سی آر، کمپیوٹر، ٹیپ ریکارڈر، گھڑی اور پتا نہیں کیا کیا یک جا کر دیا گیا ہے۔ اس کے اندر قسم ہا قسم کے سسٹم اور گیمز رکھ دی گئی ہیں، جن کی میرے جیسے عام شخص کو الف بے کا بھی پتا نہیں۔
اس ’’ریوولیوشن‘‘ کا اثر ان لوگوں پر بھی پڑا ہے، مگر پھر بھی یہ وادیاں ابھی تک ان اثرات سے کافی حد تک بچی ہوئی ہیں۔ اب تو کالاش کے لوگ لڑائی جھگڑے اور جھوٹ فریب سے کوسوں دور ہیں۔ لڑکے لڑکی میں کوئی صنفی امتیاز نہیں۔ وہ سارے حقوق جو جدید دنیا میں عورت کو حاصل ہیں، یہاں پر بھی میسر ہیں۔ آئے روز کے حملوں نے انھیں ان تین وادیوں تک محدود کر دیا تھا۔ یہیں پر ہی یہ چھپ کر اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔
اس وادی کو جاتے راستے بہت مشکل ہیں۔ نہ تو چترال کی طرف سے یہاں تک آسان رسائی ہے اور نہ افغانستان کے صوبہ نورستان کی طرف سے۔ ان وادیوں سے باہر جانا عام طور پر ان کے لیے محفوظ نہ تھا۔ اسی احساسِ عدم تحفظ نے انھیں عشروں تک یہیں پر باندھ رکھا۔
گرچہ چترال میں کٹور دور میں ان کے کئی افراد مہتر چترال کی حکومت کے اندر کام کرتے رہے، مگر زیادہ تر یہ لوگ چھپ چھپ کر اپنے دن رات بسر کرتے تھے۔
یہ وادیاں ویسے تو دونوں طرف موجود پہاڑوں سے پرے دوسری جانب ایک دوسرے سے دور لگتی ہیں، مگر ان میں موجود پہاڑی رستوں اور پگڈنڈیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
بمبوریت سے بائے روڈ ’’وادئی بریر‘‘ جانے کے لیے آپ کو واپس مڑ کر ’’ایون‘‘ آنا پڑتا ہے اور پھر دریائے چترال کے ساتھ تھوڑا چل کر دائیں طرف سے اُترتے تنگ نالے کے ساتھ چل کر اس وادی تک پہنچنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ریمبور کو جانے کے لیے بھی بمبوریت سے واپس دوباش پُل تک آنا پڑتا ہے۔
دوباش پُل وہ جگہ ہے جہاں پر دریائے ریمبور نیچے آ کر دریائے بمبوریت سے ملتا ہے، اور جہاں پر ان وادیوں کو جانے والے ٹورسٹس کی انٹری اور ان سے فی کس ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اسی پُل سے ایک رستہ دریائے ریمبور کے ساتھ ساتھ نکلتا ہے۔اسی دریا کے ساتھ چل کر تھوڑا اوپر جا کر آپ وادئی ریمبور تک پہنچ سکتے ہیں، مگر یہ لوگ تو پہاڑی پگڈنڈیوں کے راستے سفر کر کے ایک دوجے کے پاس آتے جاتے ہیں۔
ایک دفعہ ہم نے کراکال گاؤں سے ایک بچے کو گائیڈ کے طورپر اپنے ساتھ لیا تھا۔ اُس نے ہمیں سارا گاؤں، دریا پار قبرستان اور پھر شیخاناندہ گھمایا۔ شیخاناندہ سے وہ ہمارے دیکھتے دیکھتے چند منٹوں میں بائیں طرف والا پہاڑ چڑھ کر بریر کی جانب غائب ہوگیا تھا۔
افغان جنگ کے بعد بہت سے لوگ باہر سے آکر ان وادیوں میں آباد ہوگئے ہیں۔ بمبوریت اور بریر میں اب کالاشی اقلیت میں ہیں، مگر کبھی یہاں پر صرف کیلاشی ہی رہا کرتے تھے۔
سالوں کٹ کر رہنے کی وجہ سے ان لوگوں نے اپنی ایک الگ دنیا بسالی اور زندگی کے ہر ہر پہلو کو رنگین بنانے کی کوشش کی، جو کہ یہاں مقامی طور پر بہت سے تہوار منعقد کرکے ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹنے کی کوشش بھی ہے۔
آج بھی ان وادیوں میں کسی کی پیدایش، منگنی، شادی، بارات حتی کہ وفات پر بھی تہوار کا گمان ہوتا ہے۔
کالاشی لوگوں کے مذہبی عقائد بڑے انوکھے قسم کے ہیں، جو وہ انھی تہواروں کے مواقع پر ادا کرتے ہیں۔ ان تہواروں پر قاضی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ 70 کے قریب ان کے قاضی ہیں۔ جب کہ ان پر ایک ہیڈ قاضی بھی ہوتا ہے۔
٭ چلم جوشی:۔
چلم جوشی کی ابتدا یکم مئی سے ہوتی ہے۔ کیلاشی یکم مئی سے لے کر 10 مئی تک اس تہوار کے لیے گھر گھر اپنے جانوروں کا دودھ جمع کرتے ہیں۔ 11 مئی کو قاضی سوگ ختم کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ کیوں کہ ان وادیوں میں کسی شخص کی وفات کا سوگ لمبے عرصے تک منایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ سوگ پورا سال ہی منایا جاتا ہے۔ یہاں فقط قاضی ہی اس سوگ کو ختم کرنے کا اعلان کرسکتا ہے۔
فوتگی والے گھر کے لوگ اپنے گھر پر ایک بڑی دعوت کا اہتمام کرتے ہیں، جس میں اُن کے خاندان کے دوسرے لوگ بھی اُن کی مدد کرتے ہیں۔ اس موقع پر ڈھیر سارے جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ کھابے تیار ہوتے ہیں۔ ’’انگور پانی‘‘ چلتا ہے۔ پھر قاضی صاحب آ کر اُن سب کے ساتھ مل کر کھابے اُڑاتے ہیں، اور پھر رَج پج کے سوگ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ اس معاملے میں یہاں کے قاضی کا رول بھی ہمارے ہاں مولویوں جیسا ہے ۔ فوتیدگی کی صورت میں گھر والے روتے پیٹتے اور پریشان ہوتے ہیں۔ جب کہ اس موقع پر صرف ہمارا مولوی خوش ہوتا ہے۔ ابھی میت گھر پر پڑی ہوتی ہے کہ دیگیں کھڑکنا شروع ہوجاتی ہیں۔ کبھی مہمانوں کو دال پکا کر دال روٹی کھلائی جاتی تھی، مگر اَب تو مرنے والے کے قُل شریف کا ختم کسی شادی کے ولیمہ سے کم نہیں ہوتا۔ پھر ساتویں کا ختم، کچھ لوگ 20واں بھی مناتے ہیں، یعنی وفات کے 20ویں دن پر ختم کا اہتمام کرنا اور پھر 40ویں پر تو پورا ولیمے کا گمان ہوتا ہے۔ کچھ غم ہوتا ہے، تو گھر والوں کو ہوتا ہے۔ بقیہ لوگ تو کھابا کھانے تشریف لاتے ہیں۔
اس دوران میں ہمارے مولوی صاحب کی بھی موجیں لگی رہتی ہیں۔ اسے وافر مقدار میں کھانے کے ساتھ پیسے اور کپڑے بھی ملتے ہیں۔ عام طور پر ان مولوی حضرات کی تنخواہ تو واجبی سی ہوتی ہے۔ ان کی اصل کمائی تو ایسے مواقع پر اوپر سے ہوتی ہے۔ جیسے کسی شادی اور خوشی کے موقع پر باجا بجانے والوں کی اصل کمائی ’’اُوپر‘‘ کی کمائی ہوتی ہے۔ جب بارات میں شامل لوگ دولھے پر اپنی خوشی سے نوٹ نچھاور کرتے ہیں۔ مرنے والے/ والی کی روح کو ثواب بھی خوش خوراکی سے پہنچایا جاتا ہے۔ اس معاملے میں ہمارے مولوی اور اُن کا قاضی ’’ثواب بالغذا‘‘ کے ذریعے مرحوم کو ثواب پہنچانے میں باہم متفق نظر آتے ہیں۔
12 اور 13 مئی کو مویشی خانوں سے دودھ جمع کیا جاتا ہے، جو پچھلے 10 دنوں تک جمع کیا ہوتا ہے۔ 14 مئی کو وادئی ریمبور میں چلم جوشی شروع ہوجاتا ہے۔ 14 مئی کی صبح ’’چھر پی پی‘‘ کی رسم سے اس کا آغاز کیا جاتا ہے۔
بمبوریت میں ’’برن‘‘ (Brun) نامی گاؤں کی رقص گاہ سے دریائے بمبوریت کی جانب ایک جلوس جاتا ہے، جس میں مرد و خواتین زرق برق اور بہترین لباس زیبِ تن کرکے شریکِ جلوس ہوتے ہیں۔
یہ جلوس دریا پار کر کے پہاڑ کا رُخ کرتا ہے اور پھر پہاڑ کے دامن سے واپس لوٹ آتا ہے۔ سیاہ، سرخ، نیلے، پیلے، اودھے پیرہن، سروں پر تاج، نیلی بھوری اور سیاہ آنکھوں والی کیلاشی اپسرائیں دھیرے دھیرے چلتی اٹکھیلیاں کرتی، گاتی گنگناتی، ناز، نخرے ، مورنی کی چالیں چلتی واپس لوٹتی ہیں، جن کے ساتھ سر پر مور پنکھ لگی ٹوپی پہنے کالاشی جوان ڈھول کی تھاپ پر رقصاں چلتے ہوئے ایک دوجے کو چھیڑ چھاڑ کرتے جاتے ہیں۔ کچھ مذہبی رسوم ادا کی جاتی ہیں اور پھر یہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، جہاں پر دودھ پینے کی رسم کے ساتھ پوری وادی میں جشن کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا ہے۔
15 مئی کو بمبوریت میں اُن کی ایک عبادت گاہ ’’ہند‘‘ کی جگہ پر مرد اکٹھے ہوتے ہیں، جب کہ عورتوں کو وہاں تک آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ نیچے رہتی ہیں۔ اس کے بعد وہاں پر پچھلے سال پیدا ہونے والے بچوں کو لایا جاتا ہے۔ لڑکیوں کے سر پر خصوصی ٹوپی جسے ’’سوشوت‘‘ یا ’’پھس‘‘ کہتے ہیں، پہنائی جاتی ہے۔ پھر اُنھیں کیلاشی مذہب میں شامل تصور کیا جاتا ہے۔ دودھ کے چھینٹے ’’ہند‘‘ پر مارے جاتے ہیں۔ ’’بسیشہ‘‘ نام کے خاص پھول کی تازہ شاخیں توڑ کر گھروں کے باہر دروازوں پر لٹکائی جاتی ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں بھی ابھی تک کچھ گھرانوں کے باہر ’’سرس‘‘ جسے ہمارے ہاں ’’شریں‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کی شاخیں توڑ کر لٹکاتے ہیں۔ گھر کے دروازے پر لٹکائی جانے والی مذکورہ شاخوں کو یہ لوگ ’’جشیٹ‘‘ کہتے ہیں۔ بکری ذبح کرکے خون کے چھینٹے اُن پر بھی مارے جاتے ہیں۔ جب یہ شاخیں سوکھ جائیں، تو اُنھیں نئی اور ہری شاخوں سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
پہلوان دیہہ اور برن، بمبوریت وادی کے سب سے نچلے دیہات ہیں۔ ان دونوں دیہاتوں کے لوگ اکٹھے ہوکر برن کی رقص گاہ میں آتے ہیں۔ وہاں پر کچھ مذہبی رسوم ادا کی جاتی ہیں اور پھر سب لوگ ’’باتریک ولیج‘‘ (Batrik Village) کی ’’ناٹیکین‘‘ یعنی مرکزی رقص گاہ کی طرف چلے جاتے ہیں۔ چند نوجوان ڈھول لے کر رقص گاہ کے درمیان میں کھڑے ہوکر مقامی طریقے کے مطابق ایک خاص لے پر زور زور سے ڈھول پیٹتے ہیں۔ جب کہ باقی ہجوم ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ڈھولچیوں کے گرد رقص کرتا رہتا ہے۔ ڈھول بجانے والوں کے ساتھ کچھ مقامی بزرگ کھڑے ہو کر وقفے وقفے سے پرانے لوگوں کے کچھ قصے کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔ لڑکیاں لڑکیوں کی بانہیں تھام کر اور لڑکے لڑکوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر گول گول گھومتے رقص کرتے رہتے ہیں۔ جب کوئی تھک جاتا ہے، تو وہ اس رقص سے نکل جاتا ہے اور اُس کی جگہ دوسرا آن شامل ہوتا ہے۔ 15 مئی کے اُس دن وادئی بریر اور وادئی ریمبور سے آنے والے کیلاشی بھی اس جشن میں شامل ہو کر رقص کرتے ہیں۔ اس موقع پر شراب، پانی کی طرح پی جاتی ہے۔
16 مئی اس تہوار کا آخری دن ہوتا ہے۔ سب لوگ پھر سے باتریک گاؤں کی مرکزی رقص گاہ میں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ شام ڈھلے تمام مرد رقص گاہ سے شمال کی جانب پہاڑ کی اوڑ ایک خاص مقام پر چلے جاتے ہیں اور ناشپاتی کے درختوں سے چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں توڑ کر ہاتھوں میں پکڑے واپس آتے ہیں۔ جب کہ عورتیں اسی رقص گاہ میں موجود محوِ رقص رہتی ہیں۔ مرد گاتے گنگناتے اپنی کسی مذہبی عبادت کے گیت گاتے واپس لوٹ کر یہی ٹہنیاں اور اُن کے پتے عورتوں پر پھینکتے جاتے ہیں۔ کیوں کہ کیلاشی مذہب کے مطابق جس عورت کو یہ ٹہنی یا یہ پتا چھو جائے، وہ اور اُس کا بچہ تمام بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے۔
کیلاشیوں کے ہاں ان مواقع پر کیا جانے والا یہ رقص اُن کی عبادت اور شراب پینا ’’ثواب‘‘ کے کام ہیں۔ ایک بار ایک ایسی ہی ڈانس پارٹی دیکھنے کا مجھے بھی اتفاق ہوا تھا۔
یہ بات ہے سنہ 2000ء کے قریب کی۔ کیوں کہ اَب سنہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہے، مگر مجھے اتنا ضرور یاد ہے کہ اُس وقت افغان جنگ ابھی تک شروع نہیں ہوئی تھی۔ فرنٹیئر ہوٹل کا مالک بابا شکر ولی کہنے لگا کہ کیلاشیوں کا ڈانس دیکھنا چاہتے ہو، تو مَیں تمھارے لیے انتظام کر دیتا ہوں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں……!
ہم نے فوراً ہاں کر دی۔ اُس نے ایک بندے کو گائیڈ کے طور پر ہمارے ساتھ تیار کیا۔ بابا شکر ولی کہنے لگا کہ اسے آپ 100 روپیا اس کی سروسز کے عوض دے دینا۔
اُن دنوں بمبوریت میں بجلی نام کی کوئی شے نہ تھی۔ ہم چترال سے روانہ ہونے سے قبل دو چار موم بتیوں کے بنڈل ساتھ لے لیا کرتے تھے۔ اَب تو موبائل نے یہ کمی بھی پوری کر دی ہے۔
اُن دنوں ہم ہوٹل میں اپنے کمروں کے اندر موم بتی جلا کر روشنی کیا کرتے تھے۔ ہوٹل کی پرانی دو منزلہ لکڑ سے بنی بلڈنگ کے نچلے حصے میں بابا شکر ولی کی ایک دکان بھی ہوا کرتی تھی، جس میں کھانے پینے اور روزمرہ کی کچھ اشیا دست یاب ہوتی تھیں۔ ہم نے اُس دکان سے اپنے لیے بیٹری سیل سے چلنے والی ایک ایک ٹارچ خریدی۔ اُس میں سیل ڈالے اور اُس گائیڈ کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ کیوں کہ اس وقت رات کا سماں تھا۔ چاند کی چاندنی تو تھی، مگر پھر بھی ہمارے لیے تو خاصا اندھیرا ہی تھا۔
خیر، وہ ہمیں ہوٹل کی پچھلی طرف موجود پہاڑ کی طرف لے کر چلا گیا اور پھر تھوڑی چڑھائی چڑھ کر ایک ایسی جگہ پر لے گیا، جہاں چاروں طرف پتھروں سے بنی چھوٹی چھوٹی دیواروں کے اندر ڈھول کی تھاپ پر رقص جاری تھا۔ یہ ڈھول ایک مقامی نوجوان اپنے گلے میں ڈالے زور زور سے پیٹ رہا تھا۔ اس کے پاس ہی ایک بزرگ بھی کھڑا تھا، جس نے ایک ’’گاون‘‘ سا پہنا ہوا تھا۔ کالے، پیلے، نیلے اور سرخ رنگوں کی ہولی کھیلتے رنگ بہ رنگے پیرہنوں میں ملبوس ناریاں…… ڈھولچی کے گرد ایک دوسری کی بانہوں میں بانہیں ڈالے گول گول گھومتی رقص کناں تھیں۔ جب کہ بقیہ لوگ ارد گرد بنی چھوٹی چھوٹی پتھر کی دیواروں پر بیٹھے یہ سب دیکھ اور سن رہے تھے۔
اس رقص گاہ کی مغربی سائیڈ پر اس کے اندر داخل ہونے کا دروازہ سا بنا ہوا تھا۔ وہ ہمیں اسی دروازے سے لے کر رقص گاہ کے اندر داخل ہوا تھا۔
ہم بھی وہاں پر جا کر شمال کہ جانب والی پتھروں سے بنی دیوار پر بیٹھ گئے۔ وہاں پر ہمارے بیٹھنے کے لیے جگہ تو موجود نہ تھی، مگر ہمارے گائیڈ کے کہنے پر وہ جگہ مقامی لوگوں نے خالی کر دی تھی۔
اس وقت میرے ساتھ میرا مرحوم دوست جعفر رشید بھی تھا۔ بڑا شریف النفس اور پاک باز شخص تھا۔ چہرۂ انور پر سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سہرا بھی سجا رکھا تھا۔ ہم کچھ دیر تک جاری یہ رقص ’’کڑبو کڑبو‘‘ دیکھتے رہے۔ پھر اُن حسیناؤں میں سے ایک حسینہ ہماری طرف آئی اور جعفر رشید کا بازو پکڑ کر، باقاعدہ کھینچ کر اسے کہنے لگی کہ ’’آئیں آپ بھی ہمارے ساتھ ڈانس کریں!‘‘
جعفر اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے اُسے کہنے لگا: ’’پراں وڑ،(یہ اُس کا تکیۂ کلام تھا) تینوں ہور کوئی نئیں لبھدا ایتھے۔‘‘ اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ ’’چل اُٹھ چلیے ایتھوں۔‘‘ اور گائیڈ کو ساتھ لے کر ہمیں کھینچ کر وہاں سے نیچے واپس ہوٹل لے آیا تھا۔
اچھال، اچاؤ، اچال:۔
یہ کیلاش کا دوسرا بڑا تہوار ہے۔ یہ موسمِ گرما یعنی جون میں منعقد ہوتا ہے، جب یہاں فصلوں کی کٹائی شروع کی جاتی ہے۔ آپ اسے ’’کیلاش کا بیساکھی میلہ‘‘ بھی کَہ سکتے ہیں۔
دوسرے تہواروں کی طرح اس کی ابتدا بھی روایتی رقص سے ہوتی ہے، مگر روایتی طور پر ڈانس صرف دو جگہوں پر ہوتے ہیں: کراکال گاؤں اور برن گاؤں میں۔
کراکال گاؤں شاید بقیہ گاؤں سے اوپر کی جانب تھوڑا دور ہے۔ اس لیے اس میں صرف کراکال کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ جب کہ برن گاؤں میں برن کے علاوہ پہلوان دیہہ، انیش اور باتریک کے لوگ بھی شمولیت اختیار کرتے ہیں۔
یہ ڈانس تہوار کے آغاز تک جاری رہتے ہیں۔ 22 اگست کی شام کو ریمبور اور بریر سے بھی دوسرے کیلاشی بمبوریت پہنچ جاتے ہیں۔ رات کے 8 بجے برن گاؤں میں ان کی خاص مذہبی عبادت گاہ ’’ڈیوادور‘‘ میں مذہبی رسومات شروع ہو جاتی ہیں۔
بکریاں ذبح کی جاتی ہیں۔ کچھ مذہبی عبادات ادا کر کے ان بکریوں کا گوشت وہیں پر پکایا جاتا ہے ۔ رات کے 11 بجے تک جب یہ گوشت پک کر تیار ہو جاتا ہے، تو اسے نیچے لاکر گھروں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ اسے عورتیں نہیں کھاسکتیں۔
مختلف چراگاہوں سے پنیر بھی اکٹھا کیا جاتا ہے، مگر اسے بھی کھانے کی عورتوں کو اجازت نہیں ہوتی۔ وہ ساری رات رقص کرتے گزارتی ہیں اور دن چڑھنے پر یہ تہوار اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔
کسی بھی تہوار کو شروع کرنے سے پہلے ان تینوں وادیوں میں کوئی موت واقع ہو جائے، تو قاضی 15 دن کے لیے سوگ کا اعلان کر دیتا ہے اور پھر قاضی ہی اسے ختم کرنے کا اعلان بھی کرتا ہے۔ بالفاظِ دیگر سوگ کو شروع کرنے اور پھر اس کو ختم کرنے کا اختیار فقط قاضی کے پاس ہے۔
مشہور کوہ پیما ’’سر رائن ہولڈ میسنر‘‘ جس نے پاکستان میں موجود ساری سب سے اونچی 8 ہزاری پہاڑی چوٹیاں بغیر آکسیجن کے سر کر رکھی ہیں، سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ ہر سال یہاں پاکستان کے شمالی علاقہ جات آکر یہاں موجود دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹیاں سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھی کو تکتے رہتے اور یہیں پر رہ کر وقت گزارتے ہیں۔ کون سی ایسی چیز ہے جو آپ کو کھینچ کر یہاں ضرور لے آتی ہے؟ اُن کا جواب بڑا مزیدار تھا۔ کہنے لگے کہ پاکستان کے یہ شمالی علاقے اتنے خوب صورت اور یہ میرے دل کے اتنے قریب ہیں کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں انھیں کسی طریقے سے ڈھانپ کر محفوظ کر کے رکھ لوں، اور کل کلاں سو دو سو یا چار سو سال بعد جب مجھے کوئی پوچھے کہ پہاڑوں کی خوب صورتی کیا ہوتی ہے؟ تو مَیں ان پر سے پردہ اُتار کر اسے دکھا سکوں کہ اصل خوب صورتی یہ تھی جسے قدرت نے بنایا تھا، اور جسے انسان نے اپنی روزمرہ حرکتوں کی وجہ سے بگاڑ کر اب اس کا ایسا برا حال کر دیا ہے۔
قارئین! کبھی کبھی مَیں سوچتا ہوں کہ اے کاش……! کسی طریقے سے اس معدوم ہوتی ہوئی کیلاشی تہذیب و ثقافت اور ان کے رنگا رنگ تہواروں کو بھی محفوظ کر کے رکھا جاسکے۔ پوری دنیا میں سب سے انوکھے قسم کے ان کے تہوار اور مذہبی رسومات ہیں…… اور ان کی عورتوں کے کالے، پیلے، سرخ، نیلے، ہرے، میرون وغیرہ جیسے رنگ بہ رنگے دل کش و دل نشیں لباس اور قسم ہا قسم کے پہناوے ہیں۔ ’’سوشوت‘‘ نامی سر پر موتیوں، منکوں، کوڈیوں اور مختلف قیمتی پتھروں سے جڑا ٹوپی نما پہناوا ہے، جس پر مختلف رنگوں کے مختلف پرندوں کے رنگ بہ رنگے پر بھی ٹنگے ہوتے ہیں۔ کل کلاں کوئی شخص کسی الگ تھلگ، سب سے مختلف اور وِکھری قسم کی تہذیب و ثقافت دیکھنے کا طلب گار ہو، تو میں اسے اس کیلاشی تہذیب و ثقافت پر سے پردہ اُتار کر اسے دکھا سکوں کہ یہ ہے دنیا کی سب سے وِکھری اور الگ تھلگ قسم کی عجوبہ تہذیب و ثقافت۔
صدیوں تک تو یہ تہذیب و ثقافت کسی نہ کسی طرح سے بچی رہی ہے، مگر اب یہ بھی دنیا بھر میں تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کی زد میں آ کر بڑی تیزی سے تبدیل ہوکر معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی رنگا رنگی بھی سکڑتی جا رہی ہے۔ اب اس کے رقص مجھے رقصِ بسمل سے رقص لگتے ہیں۔
بکریاں ذبح کرنا، شراب پینا اور رقص کرنا ان کے ہر ہر تہوار کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ یہ لوگ کسی کی موت پر بھی رقص کرتے ہیں۔ خاص طور پر جب اس سوسائٹی میں موجود کوئی زیادہ عمر پانے والا بزرگ وفات پاتا ہے، تو یہ اُسے اُس کے مکمل ڈریس یعنی جوتا اور ٹوپی سمیت ’’جسٹا خان‘‘ نامی ایک مذہبی اہمیت کی حامل جگہ پر اس کی چارپائی سمیت اس پر لٹا کر رکھ دیتے ہیں…… اور پھر آ آ کر اس کی ٹوپی اور جوتوں کے اندر کچھ نوٹ اڑستے جاتے ہیں۔ مردے کے قریبی رشتہ دار لاش کے قریب کھڑے ہو کر آنسو بہاتے ہیں۔ جب کہ بقیہ لوگ اس دوران میں اُن کا مذہبی رقص جاری رکھتے ہیں۔
یہ لوگ اپنی شادی غمی، منگنی، میلے یا کسی بھی تہوار کے موقع پر وہاں ضرور رقص کناں ہوتے ہیں۔ یوں اُن کی ساری عبادات رقص سے عبارت ہیں۔
مسلمانوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اب یہ زیادہ تر جانوروں کو مسلمانوں سے ذبح کرواتے ہیں، تا کہ مسلمان بھی یہ گوشت کھاسکیں۔ کیوں کہ کسی کی موت یا کسی تہوار کی صورت میں بہت سے مسلمان بھی ان کے خوشی و غم میں شامل ہوتے ہیں۔ شادی و تہوار کے بعد موت کی صورت میں بھی یہ لوگ لمبا چوڑا خرچہ کر کے کھانے کا ایک بڑا اہتمام کرتے ہیں۔
فرق صرف یہ ہے کہ کسی مسلم کو اس سوگ میں شامل ہونے سے پہلے ہوائی فائرنگ کر کے اپنے آنے کی اطلاع دینا ہوتی ہے۔
ابھی کچھ دیر قبل وادئی بریر کے تاریخی گاؤں گروم میں ’’سنگیرائے بی بی‘‘ کی وفات کے بعد تدفین کی گئی۔
سنگرائے بی بی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ان وادیوں میں سب سے زیادہ لمبی عمر پانے والی خاتون تھیں، جن کی عمر کا اندازہ 120 سال کے لگ بھگ لگایا گیا تھا اور جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت اُن کے دو بچے بھی تھے ۔
اُن کی وفات پر 30 عدد بکرے ذبح کیے گئے۔ کھانے کی تیاری کے لیے 3 من دیسی گھی کے علاوہ 150 کلو پنیر اور 25 من آٹا اکٹھا کیا گیا۔ جب کہ اس موقع پر کھانوں کی تیاری کے لیے 200 من سوکھی لکڑی بھی جمع کی گئی تھی۔ اُن کے مرنے پر پورے ایک سال کے لیے سوگ کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
رقص سوگ بھی ہے اور یوگ بھی۔ رقص تدبیر بھی ہے اور تعبیر بھی۔ رقص حسن بھی ہے اور جادو بھی ہے۔ رقص حیا بھی ہے اور ادا بھی۔ رقص انسانی تاریخ میں صدیوں سے جڑا ہوا اس کے ساتھ ساتھ چلتا آ رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں رقص کے آثار 9 ہزار سال پیچھے تک جاتے ہیں۔ اس کی ہر ہر جنبش، ہر ہر ٹھہراو، گھماو اور ہر ہر حرکات و سکنات کے پیچھے بہت سے مخفی مفہوم چھپے ہوئے ہوتے ہیں، جنھیں ان پر تحقیق کرنے والے اور اس فیلڈ کے ماہر لوگ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
کیلاشیوں کے رقص کے بھی مختلف مواقع پر خاص رقص اور ان کے خاص مطالب ہیں۔ بہ قولِ شاعر
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تو کہ نا واقف آداب غلامی ہے ابھی
٭ چوموس، چاؤموس یا چترماس:۔
ہائے بایک ہو
مائے بہل بایک ہو
ادوا تا سلی پیرائی پرا
ترو میشو اتا کھوجی تائی نی سپر ایس
شاخر شربت کوکاس باتیا اسیت
تن موچونا پھاژی دیس کو ندائی
ترجمہ:
میرے بھائی میرے پیارے بھائی
تم سارا دن کہاں رہے
جب شام کو آئے ہو
دن بھر میں تمھیں ڈھونڈتی رہی
تم مجھے میٹھا شربت کیوں نہیں پلاتے
بولو ناں! کیوں نہیں پلاتے
اور تم میٹھا شربت آپس میں تقسیم کیوں نہیں کرتے
بولو ناں! تقسیم کیوں نہیں کرتے
ہائے میرے بھائی!
یہ ایک مقبول کیلاشی گانے کے بول ہیں، جنھیں دسمبر میں منعقد ہونے والے اس تہوار میں گایا جاتا ہے۔ اس تہوار کو ’’چوموس‘‘، ’’چاؤموس‘‘ یا ’’چترماس‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ سال کا آخری تہوار ہوتا ہے۔ اس گیت میں ایک بہن کی طرف سے اپنے پیارے بھائی کے لیے محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔
چوموس کے لغوی معنی بھی سال کے آخر کے ہیں۔ ’’سارا زاری‘‘ چوموس کی پہلی رسم ہے۔ 8 دسمبر کو شروع ہونے والا یہ تہوار سب سے زیادہ مزیدار تہوار ہوتا ہے۔ ان دنوں کیلاش وادیوں میں سخت سردی ہوتی ہے۔ رات کو درجۂ حرارت منفی چھے یا سات تک گر جاتا ہے۔ روایتی طور پر ’’گڈیراک‘‘ یا مقامی قاضی سوگ ختم کرنے کا اعلان کرتا ہے اور اس اعلان کے ساتھ ہی چوموس شروع ہو جاتا ہے۔ 9 تاریخ کو اس کا پہلا دن ہوتا ہے، جسے چھوٹا دن کَہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ جب کہ 10 تاریخ کا دن بڑا دن کہلاتا ہے۔ یہ تہوار کیلاشیوں کی عید بھی کہلاتا ہے۔ ایک کمیٹی گھر گھر جا کر خشک پھل اکٹھا کرتی ہے اور پھر اُنھیں پہاڑ پر بنی مخصوص عبادت گاہ ’’ملوش‘‘ لے جایا جاتا ہے۔ جہاں ساری رات عبادت کے بعد یہ پھل واپس لا کر 9 اور 10 دسمبر کے دنوں میں دوبارہ گاؤں میں تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ 9 اور 10 دسمبر کی رات آگ کے الاؤ روشن کیے جاتے ہیں۔ جب کہ 12 دسمبر کو یہ رسم دن کے وقت آگ کے الاؤ جلا کر پوری کی جاتی ہے۔
11 اور 12 دسمبر کو ایک اور رسم ادا کی جاتی ہے، جسے ’’گوش سارس‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس روز بکریوں کے گوشت کے ساتھ اس سال نئی تیار کی گئی شراب لے کر اور پھر دونوں مرد و زن مل کر مخصوص پکوان تیار کرتے ہیں۔ یہ نئے سال کی آمد کا پہلا جشن ہوتا ہے۔ یہ رسم دو راتوں تک چلتی ہے۔
13 دسمبر کے دن لڑکے اور لڑکیاں مل کر اخروٹ کے خشک چھلکوں کو جلا کر اُن کی راکھ کا آمیزہ تیار کرتے ہیں۔ یہ آمیزہ سیاہی کی طرح کا ہوتا ہے۔ اس سیاہی سے جانوروں کی شبیہیں بناکر اسے رنگ دینے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس رسم کو ’’چوئی ناری‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب کہ گھروں میں بھی اخروٹ اور گندم کے آٹے سے چھوٹے چھوٹے مجسمے تیار کرکے سجائے جاتے ہیں۔ جنھیں ’’شارابرایک‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ کیلاشیوں کا عقیدہ ہے کہ اوپر پہاڑوں پر وادیوں میں موجود کندہ تصویریں اور نشانات انھی مجسموں کی روحوں کے ہیں۔
14 دسمبرکی رات کو ہی اخروٹ کو پیس پیس کر اُن کے آٹے سے اُن کی روٹیاں تیار کی جاتی ہیں۔ اس دوران میں ہر گاؤں میں رقص کی محافل جاری رہتی ہیں، جس میں گاؤں کے لڑکے، لڑکیاں، مرد اور عورتیں شامل ہوتی ہیں۔ دیوتاؤں کی تعریف کرنے کے ساتھ اپنے گزرے ہوئے باپ دادا کی تعریف میں بھی گیت گائے جاتے ہیں۔ اس رسم کو ’’کوڑامو‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔
15 دسمبر کے دن ’’باس پاریک‘‘ کی رسم ہوتی ہے۔ اس رسم میں 5 سال کے لڑکوں اور لڑکیوں کو ’’ریکھنی‘‘ اور ’’جسٹک ہان‘‘ لایا جاتا ہے۔ لڑکوں کو قمیص پہنائی جاتی ہے، جب کہ لڑکیوں کے سر پر مخصوص ٹوپیاں پہنائی جاتی ہیں۔ گذشتہ رات جو روٹیاں پکائی گئی ہوتی ہیں، اُن روٹیوں کو ان لڑکے اور لڑکیوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
16 دسمبر کا سارا دن مختلف جگہوں پر رقص کر کے بسر کیا جاتا ہے۔ اس رسم کو ’’ساوائی لیک پاری‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس تہوار کی خاص بات یہ ہے کہ 18، 19 اور 20 دسمبر کے دنوں میں کیلاشی اپنے مذہب کے ماننے والوں کے سوا کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے شخص سے نہیں ملتے۔ حتیٰ کہ اُن لوگوں کو بھی گھر سے نکال دیا جاتا ہے، جو مسلمان ہونے کے بعد اپنی کیلاش فیملی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہایش پذیر ہوتے ہیں۔ اس رسم کو ’’شی شاد‘‘ یا ’’گوش نک آو‘‘ یا پھر ’’گوشی شاؤ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو ’’گوشنگ آؤ‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔
ان کے ہاں پاکی اور ناپاکی کا تصور بہت مضبوط ہے۔ مرد پاک جب کہ عورت ناپاک تصور کی جاتی ہے۔ اسی طرح بکری پاک جب کہ مرغی یا مرغا ناپاک تصور ہوتا ہے۔
کیلاش مذہب کے مطابق مسلمان بھی ناپاک تصور کیے جاتے ہیں۔ اگر تہوار کے ان دنوں میں کوئی مسلمان یا کوئی دوسرا غیر مذہب کسی کیلاشی کو چھو لے، تو وہ کیلاشی ناپاک تصور کیا جاتا ہے۔ اور پھر اُسے پاک کرنے کے لیے بکری ذبح کر کے اُس پر اُس بکری کے خون کے چھینٹے مارے جاتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان یا کسی اور مذہب کا ماننے والا شخص اُن کی رسموں میں شامل ہونا چاہے، تو اُسے بڑی مشکلوں سے اجازت ملتی ہے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ پہلے اُسے بکری کے خون کے چھینٹے مار کے پاک کیا جاتا ہے۔ ان تین دن تک گھروں میں بند ہوکر مرد بکری ذبح کرتے ہیں، جب کہ عورتیں روٹیاں بناکر اگلے تین دن تک کھاتے رہتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق تین دن تک اپنے اپنے گھر میں بند رہ کر کھانے سے مکمل پاکی حاصل ہوجاتی ہے۔ ان کے نقطۂ نظر سے ’’چوموس‘‘ کی یہ سب سے اہم رسم ہے۔
کیلاشیوں کے سال کا یہ پہلا تہوار ہوتا ہے۔ کیوں کہ ان کا سال ہمارے سال سے پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ کمیونٹی کے باہر کے لوگ اسے ’’چیڑماس‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ چوموس میں 5 سال کے بچوں اور بچیوں کو باقاعدہ کیلاش کمیونٹی میں داخل کرنے کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے۔ کوئی غیر کیلاش اگر محبت و عقیدت اور اپنی خوشی کے ساتھ کیلاش کمیونٹی میں آنا چاہے، تو اسے چوموس کے تہوار تک انتظار کروایا جاتا ہے۔ یہ کیلاشیوں کا سب سے بڑا تہوار بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی نسبت ’’بڑوماین دیوتا‘‘ سے ہے۔
22 دسمبر کو صبح سے لے کر رات تک جشن ہوتا ہے۔ جس میں آنے کی ہر کسی کو اجازت ہوتی ہے۔
19 دسمبر سے لے کر 22 دسمبر کے درمیان گھروں میں بند ہونے سے قبل تمام مرد و زن صنوبر کی شاخوں، اخروٹ اور ناشپاتی کے پتوں کی آگ کے دھوئیں کی دھونی دے کر خود کو پاک کرتے ہیں۔ اس رسم کو ’’پوشاؤ مرات‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
جب کہ اسی دوران میں 20 دسمبر کی رات کے اندھیارے میں لکڑی سے بنی مشعلیں تھامے دیوتاؤں کی جگہ پر جاکر اپنا صدقہ اُتارتے ہیں اور عبادت بھی کرتے ہیں۔ عورتوں کو وہاں تک جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ دور رِہ کر نظارہ کرتی ہیں، یا رقص گاہ میں محوِ رقص رِہ کر اپنا جشن جاری رکھتی ہیں۔
22 دسمبر اس تہوار کا آخری دن ہوتا ہے۔ اس دن تمام مرد و زن اپنے گھروں سے نکل کر جگہ جگہ پر رقص کرتے نظر آتے ہیں، اور یہ رقص سارا دن جاری رہتا ہے۔ ’’چوموس‘‘ کا یہ سب سے بڑا رقص ہوتا ہے۔
پھر دو تین بعد لوبیا پکا کر تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس رسم کو ’’داہو تاتو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
چاؤموس کا تہوار گزر جانے کے 7 یا 8 دن کے بعد اخروٹ کی گری اور گندم کے آٹے کو ملاکر خاص روٹیاں پکائی جاتی ہیں۔ دیوتاؤں سے نئے سال کی آمد پر دعائیں کی جاتی ہیں۔
اخروٹ کی گری اور گندم سے بنی روٹی اب بھی وہاں پر مقامی مسمانوں کے ہوٹلوں میں مل جاتی ہے۔ اس دفعہ بھی ہم نے ایک ہوٹل پر خصوصی طور پر تیار کروا کے کھائی تھی۔ خاصی مہنگی ہونے کے باوجود یہ روٹی کوئی خاص مزیدار نہ تھی۔ پہلی بار مَیں نے یہ روٹی 2001ء میں کھائی تھی۔ جب مَیں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ بمبوریت گیا تھا۔ ہم فرنٹیئر ہوٹل پر ناشتا کرکے ’’شیخاں دیہہ‘‘ کی طرف پیدل چل پڑے۔ شیخاں دیہہ کا گاؤں یہاں سے کافی دور ہے۔ چلتے چلتے راستے میں ایک جگہ پر ایک شخص یہ روٹی بناتا نظر آیا تھا۔ ہمارے لیے اس وقت یہ بالکل نئی چیز تھی۔ ہم نے ایک ایک روٹی بنوا کر کوک کی بوتل کے ساتھ کھائی تھی۔ جو ہمیں بڑی سوادیشٹ لگی تھی۔ اس بار ہوٹل والے نے تو ہمیں اینویں ای مگروں لا کے فقط پیسے ٹھگنے والا طریقہ اپنایا تھا۔ اُس نے دو چپاتیاں بنا کر ان کے اندر اخروٹ کی گریاں رکھ کر اور پھر انہیں ایک دوجے کے ساتھ آپس میں جوڑ کر توے پر پکا کر دی تھیں۔ ہم جب انھیں کھانے کے لیے روٹی کا نوالہ توڑتے، تو روٹی الگ ہو جاتی اور اخروٹ کی گریاں الگ ہوکر اس میں سے گر جاتی تھیں۔ جب کہ جو روٹی ہم نے 2001ء میں بنوا کر کھائی تھی۔ وہ زیادہ مزیدار تھی اور اُس شخص کا اُس روٹی کو بنانے کا طریقہ بھی بالکل مختلف تھا۔ اُس نے اخروٹ کی گری کو پیس کر گندم کے آٹے میں ملا رکھا تھا اور پھر اُسی آٹے کو گوندھ کر اور پھر اس کی روٹی بنا کر، توے پر ڈال کر، دیسی گھی میں تل کر بناتا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے