تبصرہ نگار: ڈاکٹر امجد طفیل
انسان تشدد کیوں کرتا ہے؟
اس کی شخصیت کے وہ کون سے عناصر ہیں جو اسے دوسروں کو اذیت دینے پر مجبور کرتے ہیں؟
کیا یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے یا وہ انھیں اپنے ماحول سے سیکھتا ہے ؟
یہ اور ان جیسے کئی اور سوال ہیں جنھوں نے سماجی و کرداری علوم کے ماہرین ادیبوں اور فلسفہ دانوں کو ایک مدت سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ ان سوالوں کا کوئی حتمی جواب تو اَب تک نہیں دیا جاسکا، لیکن ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوششیں ہنوز جاری ہیں۔
تیسری دنیا کے ممالک میں خاص طور پر 20ویں صدی کے اختتام پر بھی حالات زیادہ اُمید افزا نہیں۔ اگر ایک طرف ریاستی تشدد اور ایذا رسانی لوگوں کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف خود عوام میں ایسے گروہ پیدا ہوگئے ہیں، جو تشدد کو کامیابی اور اپنے دشمنوں سے نمٹنے کا واحد راستہ تصور کرتے ہیں۔
تیسری دنیا کے ایک ملک ’’ارجنٹینا‘‘ میں چند سال پیشتر فوجی آمریت کا کنٹرول تھا۔ اس آمریت نے اپنے خلاف آواز اُٹھانے والے ہزاروں افراد کو ’’غائب‘‘ کروا دیا۔ اُن بے نام و نشاں لوگوں پر کیا بیتی؟ کوئی کم ہی جانتا ہے، لیکن ’’عمر ریوابیلا‘‘ (Omar Rivabella) کا ناول اس کی شہادت دیتا ہے کہ یہ غائب ہوجانے والے لوگ قید و بند، ظلم و تشدد اور نت نئے طریقوں سے اذیتیں سہتے ہوئے موت کو گلے لگاتے رہے ہیں۔
’’عمر ریوابیلا‘‘ ارجنٹینا نژاد امریکی ہے، جو کافی عرصے سے نیویارک میں ادیب اور صحافی کی حیثیت سے کام کررہا ہے۔ اُس کا یہ ناول 1986ء میں شائع ہوا۔ انگریزی میں اس ناول کا ترجمہ خود مصنف نے ’’پال ریوپڑا‘‘ کے اشتراک سے کیا تھا۔ اس ناول کی اشاعت نے وسیع ردِ عمل پیدا کیا۔ اس کے بارے میں کرسچن سائنس مانیٹر نے لکھا ہے: ’’اس کتاب کو جھیل جانا مشکل ہے۔ یہ شدید مذمت کرتی ہے اذیت کے پورے سلسلے کی، اُن حکومتوں کی جو اس کے لیے احکام جاری کرتی ہیں اور ان معاشروں کی بھی جو اسے برداشت کرلیتے تھے۔‘‘
یہ ناول تکنیک کے اعتبار سے مشابہ ہے جس میں ایک نسوانی کردار ’’سوزانا‘‘ اپنے اوپر ہونے والے تشددکی روداد قلم بند کررہی ہے۔ اُس کو قید کیا گیا ہے کہ اُس کے منگیتر کا تعلق ایک حکومت مخالف گروپ سے ہے۔ اب اس پر طرح طرح سے ایذارسانی کا عمل جارہی ہے۔ اسے جسمانی، ذہنی، نفسیاتی سطح پر مفلوج کیا جا رہا ہے۔ اس کے جسم کو سگریٹ سے داغا جاتا ہے۔ اس کے جسم کے مختلف حصوں کو تیز دھار والے آلات سے چیرا جاتا ہے اور حتیٰ کہ اس کے ساتھ جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔ جو مدد سوزانا کی زندگی میں پہلی بار داخل ہوتی ہے، وہ اس سے تعلق بہ طور ایک عورت کے قائم نہیں کرتا، بلکہ ’’تشدد کے ایک معروض‘‘ کے طور پر کرتا ہے…… یعنی تشدد انسانوں کو اشیا میں تبدیل کردیتا ہے۔ انسانی اعمال و افعال کی معونیت گم ہوجاتی ہے۔ صرف ایک رشتہ باقی رہتا ہے، وہ ہے خوف، دہشت اور بے بسی اور اس دور میں تشدد سہنے والا اور تشدد کرنے والا دونوں بندھے ہوئے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
جنت کی تلاش (تبصرہ)
ودرنگ ہائیٹس (تبصرہ)
شارلٹ برونٹے کا ناول ’’جین آئر‘‘ (تبصرہ)
کلیلہ و دِمنہ (تبصرہ)
صوابی کی ثقافت کا آئینہ (تبصرہ)
تشدد اور ایذا رسانی جو انسانی جسموں کے ساتھ ساتھ اس کی روح کو بھی کچوکے لگا رہے ہیں۔ قید خانے میں ہر دن نئے عذاب ساتھ لاتا ہے۔ نئے ساتھیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ پرانے ساتھی ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑتے جاتے ہیں۔ تشدد کرنے والوں کے چہرے بھی بدل جاتے ہیں، لیکن جو چیز مستقل ہے، وہ یہ کہ انسان کی انسانیت کو ختم کرنے کا عمل اسے اعلا سطح سے گرا کر اپنے ساتھیوں اور دوستوں سے بے وفائی پر مجبور کرنے اور اعلا انسانی اقدار کی جگہ تحفظِ ذات کی نچلی سطح کو سب سے اہم بنا دینے کی جدوجہد۔ تشدد کرنے والے میں کہیں کہیں انسان کا چہرہ بھی نظر آتا ہے…… جیسے سوزانا پر ایک تشدد کرنے والا جاتے ہوئے اس کے سکرٹ میں اپنی بیٹی کی لکھی نظمیں چھپا جاتا ہے، تاکہ تنہائی میں وہ اُنھیں پڑھے اور بتائے کہ اُس کی بیٹی کیسی نظمیں لکھتی ہے۔ یہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ مصنف انسان کے اندر اچھائی کے عناصر کی موجودگی کو محسوس کرتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ ابھی انسان باقی ہے۔
سوزانا اپنی روداد کاغذ کے چھوٹے ٹکڑوں پر لکھ رہی ہے جو اسے خفیہ طور پر مہیا کیے جاتے ہیں اور قید خانے سے باہر لے جائے جاتے ہیں اور آخر میں سوزانا کی ہدایت پر یہ کاغذ اور حکومت کے خلاف لڑنے والے لوگوں سے ہم دردی رکھتا ہے۔ کیوں کہ خود اس کا اپنا باپ بھی حکومتی تشدد کے باعث اپنی جان ہار چکا ہے۔
فادر انتونیو کاغذ کے ان ٹکڑوں کو جوڑکر سوزانا کی روداد کو مکمل کرنا شروع کرتا ہے۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے، خود اُس کا ذہن تشدد کے واقعات تحریر کرتے ہوئے شدید اثرات قبول کرتا جاتا ہے۔ اس کی جسمانی صحت گرنے لگتی ہے۔ وہ وعظ کے دوران میں انتونیو سے ہم دردی محسوس کرنے لگتے ہیں، لیکن حکومتی اہل کار اس کی نگرانی شروع کردیتے ہیں۔ آخرِکار فادر سوزانا کی روداد مکمل کرکے اسے اپنے ایک دوست کے ذریعے عمر روابیلا کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
آصف فرخی نے اس ناول کو اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے، تو یہ ناول خاص طور پر کراچی کے حوالے سے ہمارے لیے اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔
آصف فرخی بہ طور افسانہ نگار، مترجم اور نقاد کے اُردو ادب میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ بہ طورِ ڈاکٹر وہ انسان کی نفسیات میں بھی خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس ناول کے آخر میں ایک طویل مکالمہ ہے، جو تشدد اور ایذا رسانی کے حوالے سے مختلف سوالات پر مبنی ہے۔ اُس میں مشہور ماہرِ امراض ذہنی ڈاکٹر ہارون احمد، مشہور ادیب و صحافی انور سن رائے اور آصف فرخی نے حصہ لیا ہے۔ ڈاکٹر ہارون احمد نے کراچی کے حوالے سے تشدد کو ایک آموزشی کردار قرار دیا ہے۔ یہ مکالمہ کراچی میں تشدد کے واقعات کے محرکات کو سمجھنے میں کئی اہم نِکات پیش کرتا ہے اور پاکستان کے سیاسی و سماجی حالات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ اس میں تشدد اور ایذا رسانی میں جبلی اور وراثتی اثرات کی طرف بھی اشارہ موجود ہے، فرائیڈ نے ’’تخریبِ ذات‘‘ کے تصور کے حوالے سے انسان میں شکست و ریخت کے رجحان کی موجودگی کی نشان دہی کی تھی کہ اس تخریب ذات کی سمت فرد کے اندر کی طرف ہو،تو وہ خود کو تباہ کرتا ہے اور باہر کی طرف ہو، تو دوسروں کو تباہ کرتا ہے۔
اسی طرح ایرک فرام نے اپنی تصانیف میں بھی اس مظہر کو سمجھنے کے لیے وراثت اور ثقافت دونوں طرح کے عوامل کو سامنے رکھا تھا اور شاید انسانی نفس کے اس مظہر کو کسی ایک عامل کے ذریعے سمجھنا مشکل بھی ہے۔
بہ ہر طور آصف فرخی کا ترجمہ ’’ماتم ایک عورت کا‘‘ ہمارے مخصوص سماجی و سیاسی حالات کے باعث بہت اہم ہے اور ادبی معنویت کے اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ترجمے کو خوب صورت گیٹ اَپ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
(کتاب پر یہ تبصرہ ڈاکٹر امجد طفیل کی کتاب ’’ہم عصر عالمی اَدب‘‘ سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب سنگِ میل پبلی کیشنز ، لاہور نے شائع کی ہے۔)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔