آج کی نشست عبید استاد کے نام کرتا چلوں۔ عبید استاد، دستخط مستری کی طرح اَن پڑھ تھے اور دستخط مستری ہی کی طرح ماہرِ تعمیرات تھے۔ 1928ء سے جولائی 1969ء تک جب ریاست ختم ہوئی، بونیر میں جتنی بھی ریاستی عمارات از قسم ہسپتال، سکول، ڈسپنسری، رہایشی مکانات، عدالتیں اور پل تعمیر ہوئے، وہ سب عبید استاد کی نگرانی ہی میں تعمیر ہوئے۔ اُن میں سے اکثر آج بھی اُس سنہرے دور کی یاد دلاتے ہیں۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
عبید اُستاد ایک بھاری بھر کم جسامت کے مالک تھے۔ موٹے موٹے ہاتھ پاؤں، آخر عمر کچھ ’’استھمیٹک‘‘ (Asthmatic) ہوگئے تھے۔ ذرا سا چلتے، تو سانس اکھڑنے لگتی۔ ڈگر ہسپتال کے بالمقابل اُن کی رہایش گاہ تھی۔ دو بیٹے سید جوہر اور ایک سب سے چھوٹا راج مستری کا کام کرتا تھا۔ ایک بیٹا ’’سید قدر‘‘ ڈگر ہسپتال میں وارڈ اردلی تھا۔ خیر یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔
عبید اُستاد کا تعلق شیرہ غونڈ گاؤں صوابی سے تھا۔ وہیں شیرہ غونڈ جو شیر بانو کا گاؤں تھا۔ موصوف سوات آنے سے پہلے کابل میں برطانوی سفارت خانے کی تعمیر میں بہ طورِ ترکھان کام کرتے رہے۔ اُن دنوں ریاستِ سوات کے قیام کے چرچے پھیل رہے تھے اور مردان وغیرہ کے اہلِ ہنر سوات کا رُخ کر رہے تھے، تاکہ اس "Land of opportunities” میں اپنی قسمت آزمائیں۔عبید اُستاد بھی اس سلسلے میں 1928ء میں سوات آئے اور آتے ہی بونیر کی سرکاری عمارات کے نگران بن گئے۔اُنھیں خود اپنے ہاتھوں سے بھی کام کرنا پڑتا، اور دوسروں سے بھی کام لینا اُن کے فرائض میں شامل تھا۔ بونیر میں اُن کو اوڈیگرام کے ایک خان شیرافضل خان کی سرپرستی مل گئی، جو پورے علاقہ بونیر کے حاکم یا وائسرائے تھے۔ موصوف کی نگرانی میں کئی یادگار عمارتیں بنیں جن میں سے بعض اَب بھی اُس دور کی یاد دلاتی ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
بزوگر حاجی صاحب
محمد شیرین کمان افسر
محمد افضل خان لالا
فلائنگ کوچ مولوی صیب
سوات، 1971ء کے انتخابات کی ایک یاد
عبید اُستاد کو ایک اور مہربان شخصیت کا تعاون بھی حاصل رہا۔ یہ تھے ایلئی گاؤں کے مشہور خان شاہ رضا خان کاکا، جو بہت مہمان نواز اور کھلے دل کے مالک تھے۔ اُنھوں نے عبید کو ڈگر کے قریب ایک بڑا قطعۂ زمیں دے دیا کہ اسے کاشت کرو۔ اس کی ساری فصل تیری ہوگی۔ بعد میں جب عبید اُستاد آسودہ حال ہوگئے، تو اُنھوں نے شاہ رضا خان کاکا کو زمین واپس کرنا چاہی۔ کاکا نے کہا، دیکھو! اس میں اللہ نے تمھارا رزق لکھا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ تم یہاں ڈگر میں موجود ہو۔ اگر مجھے کہا جاتا کہ اس کھیت کی پیداوار عبید نامی شخص کو شیرہ غونڈ پہنچا دو، تو مجھے کتنی تکلیف اٹھانا پڑتی۔
ایسے ہوتے تھے بونیر کے مشران، سادہ دل اور مہربان۔
عبید اُستاد 1928ء کو ریاستی ملازمت میں آئے اور جولائی 1969ء کو ادغامِ ریاست کے بعد سبک دُوش ہوگئے، مگر بہت جلد "Bulding & Roads Department” کے صوبائی افسروں کو احساس ہوگیا کہ بونیر میں عبید اُستاد کے بغیر محکمہ کے افسر نہیں چل سکتے، تو اُن کو "Work Carged” پوسٹ پر دوبارہ سروس میں لایا گیا۔ اس حیثیت سے اُنھوں نے کئی منصوبوں میں رہنمائی کی۔
ایک دل چسپ صورتِ حال اُس وقت پیدا ہوئی، جب چغرزئی کے ایک سکیم ’’بدال بٹاڑہ گلبانڈئ روڈ‘‘ میں ٹانگوڑہ کے مقام پر ایک "Arch Bridge” بن رہا تھا۔ پل کے "Abutments” تو بن گئے، اب "Arch” کے لیے فارم ورک یا شٹرنگ کا مسئلہ سامنے آیا۔ کسی انجینئر نے آرچ پل نہیں بنوایا تھا۔ عبید استاد ضعیف العمری کی وجہ سے ریٹائر ہوچکے تھے اور چل پھر نہیں سکتے تھے۔ اُن کو افسران نے آمادہ کرالیا کہ وہ یہ سکیفولڈنگ کروادے گا۔
آرچ برج بہ ظاہر سادہ لگتا ہے، مگر اس میں کئی ٹیکنیکل پوائنٹس ہیں اور وہ صرف عبید اُستاد بتا سکتے تھے کہ کس پوائنٹ سے آرچ کو "Take off” کرنا ہے۔ کراؤن میں "Key Stone” کی لوکیشن، آرچ کو موٹائی کتنی رکھنی ہے اور "Cushion” کتنی ہونی چاہیے۔ اس قسم کے پل میں تو سریا نہیں ہوتا۔ سارا ٹریفک لوڈ ’’آرچ‘‘ کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
خیر، عبید اُستاد کو بٹاڑہ تک جیپ میں اور آگے ٹانگو تک جھولے میں لے گئے۔ وہ پل کی تکمیل تک اُدھر ہی رہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔