یہ 4 اپریل کی شروعات مطلب ابھی صبحِ کاذب بھی شروع نہ ہوئی تھی، قریب آدھی رات تھی، جب راولپنڈی ڈسٹرک جیل کے ذمے داران ایک کال کوٹھری میں پہنچے اور ایک جسمانی طور پر نہایت کم زور لیکن ذہنی و نفسیاتی طور پر ایک مضبوط شخص کو پھانسی کے چبوترے پر لائے اور اگلے چند لمحوں میں اُس شخص کے گلے میں پھندا ڈال کر پھانسی کے کنوئیں میں لٹکا کر مار دیا۔
جیل کے رجسٹر پر حسبِ معمول لکھ دیا گیا کہ نواب احمد خان کے قتل کے مجرم ذوالفقار علی بھٹو ولد شاہ نواز بھٹو کو سپریم کورٹ اور صدرِ پاکستان کو کی گئی قانونی اور رحم کی اپیلیں مسترد ہونے کے بعد سزا موت دے دی گئی۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
میت کو خصوصی طیارے کے ذریعے رتو ڈھیرو سے گڑھی بخش پہنچا دیا گیا اور صرف چند افراد کی موجودگی میں دفن کر دیا گیا۔
یہ سب کارروائی صبح 8 بجے تک مکمل ہوگئی، لیکن چند خاص افراد کے علاوہ کسی کو کچھ معلوم نہ ہوا۔ پھر پہلی بار یہ خبر قیامت بن کر دنیا میں عمومی طور پر اور پاکستانی قوم پر خصوصی طور پر ٹوٹ پڑی دن 11بجے کے ریڈیو نیوز بلیٹن کی شکل میں کہ فخرِ ایشیا، تیسری دنیا کے راہ نما اور مسلم امہ کے چیئرمین، ملک کے سابق وزیرِ خارجہ، صدر اور وزیراعظم، غریبوں کے راہنما، ایک سچے قوم پرست اور پاکستان کے مقبول ترین سیاسی راہ نما کو موت کی ابدی نیند سلا دیا گیا ہے۔ اس پر ہر طرف غم و غصہ کے جذبات فطری طور پر اُمڈ آئے، لیکن تب کی آمر کی حکومت نے بس اتنا کہا کہ ایک قانونی مقدمہ تھا اور قانون کے مطابق عمل درآمد ہوگیا۔
لیکن عوام کی اکثریت اور خاص کر قانونی حلقوں نے اس الم ناک موت کو قانونی کارروائی ماننے سے انکار کردیا۔ عوام کی اکثریت اس شخص کی بیٹی کے ٹرک کے چاروں طرف کھڑی ہوگئی اور ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کی صدائیں بلند ہوگئیں۔ عوامی حلقوں نے اُس شخصیت کو غیر مشروط طور پر اور بڑی دانش سے ’’شہید‘‘ قرار دے دیا…… لیکن اعلا ایوانوں میں مکین آمر اور اُس کے ساتھیوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی دوران میں ایک مغربی صحافی نے تب کے آئین شکن آمر کا انٹرویو کیا، جس میں آمر نے بہت نروس اور بزدلانہ آواز میں کہا کہ قانون نے راستہ بنایا اور قانون کی عمل داری ہوئی۔
مگر کچھ دن بعد مذکورہ انٹرویو پر اُس ’’شہید‘‘ کی بیٹی نے بڑے اعتماد اور یقین سے تبصرہ کیا کہ میرے والد کا عدالتی قتل کروایا گیا اور تاریخ یہ فیصلہ کرے گی کہ میرا باپ قاتل اور مجرم نہیں بلکہ عوام کا خادم اور ’’شہید جمہوریت‘‘ ہے۔
یوں جوں جوں وقت گزرتا گیا، تاریخ نے اپنا بے رحم احتساب شروع کر دیا اور پہلا مظہر سنہ 1988ء کو واضح ہوا، جب تمام تر دباو، دھاندلی اور جانب داری کے باجود ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی جیت کر وزیرِاعظم بن گئی۔ سرکاری میڈیا نے پھر بھٹو کی جگہ ’’بھٹو شہید‘‘ کہنا شروع کیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ذوالفقار علی بھٹو
ذوالفقار علی بھٹو عام لیڈر نہیں تھے
بھٹو کی عملی سیاست کا آغاز
بھٹو واقعی زندہ ہے
کیا عمران خان دوسرے بھٹو بننے جا رہے ہیں؟
پھر یوں ہوا، جیسا ہوتا آیا ہے کہ تاریخ اپنے اَسرار کھولتی گئی اور غریب کی جھونپڑیوں سے ’’بھٹو بے قصور‘‘ کا نظریہ پروان چڑھتا گیا۔ اور پھر ایک وقت آیا جب بھٹو کے داماد نے بہ طورِ صدر ایک ریفرنس ملک کی عدالتِ عظمیٰ میں فائل کیا۔ اب چوں کہ یہ مقدمہ قانونی طور پر دوبارہ سنا نہیں جا سکتا تھا، سو اُس پر ’’ریویو‘‘ کی تو گنجایش نہ تھی۔ اس وجہ سے اس کو بطور ریفرنس داخل کیا گیا۔ اس ریفرنس میں پانچ بنیادی سوالات اُٹھائے گئے اور عدالت سے یہ التماس کیا گیا کہ وہ اس پر رائے دے۔ سوالات درجِ ذیل تھے:
1:۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟
2:۔ کیا نواب احمد خان قتل کیس اور اس میں سابق وزیرِ اعظم کو دی گئی سزا آرٹیکل 189 کے تحت بطورِ نظیر لاگو ہے…… اور اگر ایسا عملاً نہیں، تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟
3:۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ غیر جانب دارانہ تھا؟
4:۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ منصفانہ تھا؟
5:۔ کیا بھٹو کی سزا قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟ مزید یہ کہ بھٹو کے خلاف پراسیکویشن کی جانب سے دیے گئے ثبوت و گواہان کے بیانات قانونی و شعرعی طور پر کافی تھے؟
یہ ریفیرنس سنہ 2011ء کو دیا گیا اور اس پر ابتدائی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کی۔ پھر اس کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا…… لیکن اس کے باجود تاریخ اس حد تک انصاف کرچکی تھی کہ نہ تو کسی اور صدر کو یہ ریفرنس واپس لینے کی ہمت ہوئی اور نہ کسی چیف جسٹس نے اس کو مسترد کرنے کی جسارت ہی کی۔ کیوں کہ اُن کو معلوم تھا کہ دنیا بھر میں کسی بھی قانون سے وابستہ شخصیت نے اس کو قبول نہ کیا تھا…… بلکہ اس مقدمے کو بین الاقوامی قانونی برادری نے مسترد کر دیا تھا۔ ایک سری لنکا کے وکیل تو اس کو بین الاقوامی اداروں تک لے گئے تھے کہ اس مقدمے کو بطورِ نظیر استعمال نہ کیا جائے۔ پھر اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل بنچ کے ساتھ سماعت کرنا شروع کر دی۔ ملک کے معروف قانون دانوں کو معاونت کے لیے طلب کیا گیا۔ گو کہ عدالت یہ کَہ چکی تھی کہ ہم اس مقدمہ کا فوج داری ٹرائل دوبارہ کرنے کے قانونی مجاز نہیں…… مگر جب ریفرنس میں اُٹھائے گئے سوالات کو مدِ نظر رکھا گیا، تو اُن پر بحث ہونا فطری تھا۔ مثلاً: کچھ حلقے یہ سمجھتے تھے کہ بھٹو صاحب کے وکلا نے یہ کیس پروفیشنل انداز میں لڑا ہی نہیں، بلکہ اس کو ’’سیاسی رنگ‘‘ دے کر لمبا کرنے کی کوشش کی گئی، مگر اَب عدالت میں یہ بحث ہوئی کہ بھٹو صاحب پر مقدمہ تو محض ایک جواز و بہانہ تھا۔وگرنہ بھٹو کو مارنے کی مکمل سازش ہو چکی تھی۔ یہ وکلا کی غلطی بالکل نہیں تھی بلکہ مولوی مشتاق اور ضیاء الحق کے درمیان طے ہوگیا تھا کہ بھٹو کو بہ ہر صورت مارنا ہی ہے۔
پھر کچھ لوگ اس میں تب کے صدر چوہدری فضل الٰہی کی بزدلی بھی سمجھتے ہیں کہ اگر چوہدری فضل الٰہی دباو برداشت کرلیتے، تو بحیثیتِ صدر، بھٹو کی سزا کو معاف کرسکتے تھے…… لیکن یہ انکشاف ہوا کہ اُن کو ایوان صدر سے نکالا گیا تھا۔ بہ ہرحال اس ریفرنس کی سماعت مکمل ہوئی اور اس مقدمے پر عدالتِ عظمیٰ نے رائے دی کہ جس مقدمہ کا آغاز 1974ء کی ایک ایف آئی آر سے ہوا۔ اُس ایف آئی آر کو درج کروانے والا احمد رضا قصوری بعد میں بھی پیپلز پارٹی میں متحرک رہا اور سنہ 1977ء تک رہا…… بلکہ اس کو بھٹو صاحب نے ٹکٹ بھی نہیں دیا، پھر بھی رہا اور جوں ہی ضیا آمریت آئی، یہ چھوڑ گیا۔ پھر اس مقدمے کا نامکمل چالان مجسٹریٹ کو پیش کیا گیا۔ مجسٹریٹ نے یہ چالان سیشن عدالت بھیج دیا اور سیشن عدالت سے جسٹس صمدانی نے بھٹو کی ضمانت لے لی…… مگر ریاست فوراً لاہور ہائی کورٹ گئی اور یہ کہا کہ چوں کہ مقدمہ بہت ہائی پروفائل ہے، اس وجہ سے اس کو براہِ راست ہائی کورٹ منتقل کیا جائے۔ مولوی مشتاق نے فوراً اس کو تسلیم کرکے مقدمہ ہائی کورٹ منتقل کرلیا۔یہ تاریخ کا واحد مقدمہ تھا کہ جس میں ہائی کورٹ نے بہ طورِ ٹرائل کورٹ کام کیا اور ہائی کورٹ نے مولوی مشتاق کی قیادت میں سزائے موت سنا دی۔
المختصر جس مقدمہ کا آغاز 11 ستمبر 1977ء کو ہوا۔ 6 فروری 1979ء کو عدالتِ عظمیٰ نے ملزم ذوالفقار علی بھٹو کو مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی تھی۔ پھر اُسی عدالت نے 24 مارچ کو بھٹو صاحب کی نظرِ ثانی کی اپیل بھی مسترد کر دی اور اُسی فیصلے کی روشنی میں 4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔
اب 44 سال بعد اُسی عدالت نے گو کہ بہت ہی محدود فیصلہ دیا، لیکن مستقبل کے مورخ کو مزید مواد دے دیا کہ وہ لکھ سکے کہ ایک مجرم نہیں بلکہ ایک عوامی راہنما کو ناحق قتل کیا گیا۔
عدالت نے ایک بات واضح کَہ دی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل بالکل نہیں دیا گیا۔ اَب لوگ بے شک یہ کہتے ہیں کہ عدالت کو ذمے داران کا تعین کرنا چاہیے تھا۔ اُن پر مقدمات کی سفارش کرنا چاہیے تھی، لیکن ہمارے خیال میں یہ سب قطعی ضروری نہ تھا۔ اِن شاء ﷲ ایک دن یہ سوالات یقینا سپریم کورٹ کی عمارت میں اُٹھائیں جائیں گے۔
لیکن جب عدالتِ عظمیٰ نے کَہ دیا کہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل نہیں دیا گیا، تو اس ایک جملے میں تمام سوالات کے جوابات پنہاں ہیں۔ کیوں کہ شفافیت نہ ہونا مطلب بے انصافی ہوئی ہے…… اور جب بے انصافی ہوئی ہے، تو ٹرائل قانوناً و شعرعاً اپنا جواز ہی کھو بیٹھتا ہے۔ یوں یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو سزا قانون اور قرآن و سنت کے خلاف ہوئی ہے۔ اب اس کے ذمے داران کا تعین کون سی راکٹ سائنس ہے؟ یعنی اُس وقت کی انتظامیہ میں کون بھٹو کو مارنا چاہتا تھا اور کیوں مارنا چاہتا تھا؟ یہ تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بھٹو ریفرنس کیس کا فیصلہ نہایت معقول اور مدلل ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اس فیصلے کو جواز بناکر کل کوئی اور پٹیشن عدالت میں داخل ہو جائے کہ اب عدلیہ نہ صرف ذمے داران کا تعین کرے، بلکہ اُن کو سزا بھی دے۔
ویسے مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ عن قریب یہ سوالات عدلیہ اور پارلیمنٹ میں اٹھائیں جائیں گے کہ اَب تک قوم کہ جس کا مظہر پارلیمنٹ ہوتی ہے، میں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات پر کیا کیا…… اور مجھے یقین ہے کہ ایک دن ایوب، یحییٰ، ضیا اور پرویز مشرف کی قبروں کا ٹرائل ہوگا اور کورٹ مارشل کی کارروائی ہوگی۔ اُس وقت شاید ہم یہ دعوا کر سکیں کہ ہم سیاسی طور پختہ قوم ہیں اور تبھی ہمارا معاشی ترقی کا سفر شروع ہوگا۔
المختصر، ہم سپریم کورٹ کے بھٹو ریفرنس فیصلہ پر پوری قوم اور بھٹو خاندان کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور عوام سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ اس فیصلے کو پیپلز پارٹی یا بھٹو خاندان کے تناظر میں نہ دیکھیں، بلکہ اس کو مجموعی قومی مفاد میں لیا جائے کہ یہ فیصلہ ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے سنگِ میل ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔