ڈاکٹر بشریٰ خاتون پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اُن کا تعلق خیبر پختون خوا کے تاریخی گاؤں صوابی سے ہے۔
’’صوابی کی ثقافت کا آئینہ‘‘ ڈاکٹر صاحبہ کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جو اُنھوں نے پی ایچ ڈی ڈگری کے حصول کے لیے لکھا ہے۔ یہ مقالہ 8 ابواب پر مشتمل ہے۔ 771 صفحات کا یہ مقالہ محکمۂ ثقافت خیبر پختونخوا کی طرف سے شائع ہو کر منظرِ عام پر آگیا۔ یہ مقالہ خیبر پختون خوا اور خاص کر صوابی کے لوگوں کے لیے اعزاز ہے۔
محمد طاہر بوستان خیل کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/dr-muhammad-tahir-bostan-khel/
اس اہم تاریخی دستاویز میں صوابی کی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور فولکلور کو مؤثر پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ مقالے کے پہلے باب میں ثقافت اور تہذیب کی تعریف کی گئی ہے، ثقافت کی خصوصیات، فولکلور اور اس کی اقسام کے علاوہ پشتون ولی، پشتون روایات اور تحقیق کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔
دوسرے باب میں صوابی میں مردوں اور عورتوں کے ذمے کاموں، طبقاتی نظام کی تقسیم، معاشرتی اداروں جیسے حجرہ، مسجد، جرگہ وغیرہ کا تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پشتون روایات بدل، پیغور (طعنہ)، ننواتی (جرگہ)، مہمان نوازی اور صوابی سے تعلق رکھنے والی خواتین کی پشتون ولی کا جائزہ لیا گیا ہے۔
تیسرا باب صوابی کے رسم و رواج سے متعلق ہے۔ اس باب میں ضلع صوابی میں بچوں کی پیدایش کے موقع پر رسوم کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں شادی بیاہ اور نکاح کے رسموں کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ غمی و خوشی کی رسوم، عیدین کے مواقع پر رسوم، میلوں، یہاں کے لوگوں کے مختلف قسم کے عقائد، تعویذ گنڈوں، فال ناموں،جادو، زیارتوں، توہمات، خواب اور ان کی تعبیروں اور وقتاً فوقتاً ان رسموں میں آنے والی تبدیلیوں کا مفصل جائزہ لیا گیا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
البرٹ کامیو کا ناول "اجنبی” (تبصرہ)
جنت کی تلاش (تبصرہ)
کبڑا عاشق (تبصرہ)
موت کی خوشی (تبصرہ)
اینمل فارم (تبصرہ)
چوتھے باب میں اس ضلع کے معاشی نظام کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں زراعت اور اس سے متعلق استعمال ہونے والے اوزار کے بارے میں تفصیلاً ذکر موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی مشہور فصلوں مثلاً گنا، تمباکو، مکئی، چاول، مونگ پھلی، مٹر اور دیگر کاشت کی جانے والی سبزیوں سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس باب میں یہاں کی انڈسٹری، مردوں کے مختلف قسم کے ہنر مثلاً ترکھان، لوہار، نائی، موچی، دھوبی، سُنار، درزی وغیرہ اور عورتوں کے کاموں مثلاً رضائیاں، اِزار بند، کپڑے، دست کاری، تندور، بنیان بنانا اور بان کی مدد سے عام استعمال کی چیزیں بنانے سے متعلق معلومات شامل ہیں۔ نیز صوابی کے مردوں اور عورتوں کے روزگارکے حوالے سے مفید معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔
مقالے کا پانچواں باب مادی کلچر اور فولکور کے حواے سے ہے۔ اس باب میں زراعتی اوزار، طرزِ تعمیر، ساز و سامان، گھریلو استعمال کا سامان، یہاں کی روایتی خوراک، لباس، زیورات، اسلحہ اور طبی طریقۂ کار سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
چھٹا باب فولکلور، زبان اور ادب سے متعلق ہے۔ اس باب میں بچوں کے منظوم قصے، فولکلوری پشتو ٹپے، ضرب الامثال، پشتو لوک گیت، رومانوی کہانیاں، ڈرامے، موسیقی اور اس کے آلات، ضلع صوابی کے مشہور گلوکاروں اور گلوکاراؤں جیسے کہ صحبت خان، کفایت شاہ باچا، ڈاکٹر ہارون باچا، سلیم ناصر، اختر مورد، پی ٹی وی پشاور کے مشہور کمپیئر جمشید علی خان، بے نظیر، نظیر جان، ممتاز بیگم، صبر النسا، حبیب جان، بیگم مشتاق، انور، صائمہ ناز، شازمہ حلیم، ارشاد، (انڈیا کی مشہور اداکارہ مدوبالا کا تعلق صوابی سے تھا) سے متعلق تفصیلی معلومات، صوابی کے مِزاح نگاروں اور یہاں کے مخصوص لہجہ سے معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس باب میں صوابی کے مشہور شعرا اور ادیبوں مثلاً علی حیدر جوشی، عبد اللہ جان اسیر، شیر علی ستی، اُردو زبان کے معروف مِزاح نگار مشتاق احمد یوسفی جو صوابی کے ملنگ جان کے نواسے تھے، سید طاہر بخاری، خان روشن خان، مولانا عبد القادر (بانی پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی)، عبد اللہ جان اسیر، صاحب زادہ محمد ادریس، گوہر رحمان گوہر، جمیل یوسفزے، نور الامین یوسف زے، طلا محمد شباب، فیصل فاران بارکزئی، روخان یوسف زے، منتہا بیگم، ڈاکٹر اقبال بیگم، کلثوم افضل زیدوی اور پروفیسر فوزیہ انجم کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ساتویں باب میں یہاں کے روایتی کھیلوں بارے معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ان کھیلوں میں لڑکوں کے 60 اور لڑکیوں کے 46 کھیلوں کا ذکر موجود ہے۔
آٹھواں باب اس پورے مقالے کا محاکمہ ہے۔اس مقالے کے لیے 19 پشتو کتب، 16 اُردو کتب، 10 انگریزی کتب، 4 پشتو مجلّوں ایک اُردو مجلّے، 4 انگریزی مجلّوں، 2 انگریزی لغات اور 4 غیر مطبوعہ مقالات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی تلاش، محنت اور جستجو اور کئی مضامین کے ذریعے یہ مقالہ موضوع کے اعتبار سے انفرادی اہمیت کا حامل ہے۔
مقالے کے آخر میں صوابی میں استعمال ہونے والے مختلف پیشوں کے اوزار، گھروں میں استعمال ہونے والی چیزوں، موسیقی کے اوزاراور زیورات کی تصاویر شامل کی گئی ہیں،جو قاری کی دلچسپی کا باعث ہیں۔ مقالے کی تکمیل کے لیے ڈاکٹر بشریٰ خاتون نے معلوم اور دست یاب مواد کی روشنی میں اپنی پوری کوشش کی ہے کہ ضلع صوابی میں کی ثقافت کے حوالے سے قاری کو معلوم سے نامعلوم تک پہنچایا جائے۔ بلا شبہ بڑی حد تک وہ اس کوشش میں کامیاب رہیں۔ تحقیق کی دنیا میں اُن کا یہ ادبی کارنامہ سراہنے کے قابل ہے۔ مقالہ نگارہ کی خوبی یہ ہے کہ اُنھوں نے جو دیکھا، اُس پر آنکھ بند کرکے نہیں لکھا، بل کہ تحقیق کے اُصولوں کو مدِ نظر رکھ کر اپنی رائے قائم کی۔ رائے قائم کرنے میں اُنھوں نے کسی کو خاطر میں نہیں لایا، بل کہ جو حقائق تھے، من و عن بیان کر ڈالے۔ پشتو ادبیات میں ایسے مقالے دیکھنے کو کم ملتے ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر بشریٰ خاتون کا یہ تحقیقی کام پشتو ادب پر بڑا احسان ہے، جسے جتنا بھی سراہا جائے کم ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔