سائیکل میکینک کی دکان پر کام کرنے والے ایک بچے سے کسٹمر نے پوچھا کہ وہ سکول کیوں نہیں جاتا؟ بچے نے جواب میں کہا کہ والد کی وفات کے بعد وہ اپنی والدہ اور تین بہنوں کا واحد کفیل ہے۔ اس پر کسٹمر نے اظہارِ افسوس کیا۔ اسی طرح ہمیں اور آپ کو ورکشاپوں، ہوٹلوں، پارکوں، ٹیکسیوں، بنگلوں، کوٹھیوں، کھیتوں، کھلیانوں، تندوروں، لاری اڈوں، قالین بافی اور کاسمیٹکس فیکٹریوں، اینٹ بنانے کی بھٹیوں پر کام کرنے اور چھابڑی فروخت کرنے والے لاکھوں بچے دن رات قلیل معاوضہ پر کام کرنے اور چائلڈ لیبر کا نظارا پیش کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اس کے علاوہ وطن عزیز میں لاکھوں یتیم، لاوارث بچے اور بچیاں کوڑے کرکٹ میں سے پلاسٹک وغیرہ کی پالتو اشیا اور دیگر کاٹ کباڑ اکٹھے نظر آئیں گے جنہیں بیچ کر یہ بچے اپنے اوراپنے بہن بھائیوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
ہر سال بیس نومبر کو پاکستان سمیت ساری دنیا میں بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کی قرار داد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 14 دسمبر 1954ء کو پاس کی تھی جبکہ بچوں کے عالمی دن سے پہلے ڈنمارک کے ایک این جی او نے اسے منایا۔ اس دن کی مناسبت سے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے زیر اہتمام سیمینار اور واکس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
٭ عالمی سطح پر بچوں کے مسائل:۔ـ ایک تخمینے کے مطابق ترقی پذیر ممالک کے 14 فیصد یعنی تیس کروڑ بچوں کو صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں۔ سترہ سے اٹھارہ سال تک کے بچے تخمیناً 18 فیصد کبھی سکول نہیں گئے۔ پچاس کروڑ کو سینی ٹیشن کی سہولت میسرنہیں جبکہ چالیس کروڑ کو صاف پانی نہیں ملتا۔ غیر محفوظ پانی کے استعمال اور صفائی ستھرائی کی سہولیات کی عدم دستیابی کے نتیجے میں روزانہ ہزاروں بچے خطرناک بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پندرہ کروڑ بچے محنت مزدوری کرتے ہیں یعنی چائلڈ لیبر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں زیادہ تر بچے برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھتے ہیں۔ احساس محرومی کے شکار یہ بچے بعض اوقات جرائم پیشہ گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور جرائم اور منشیات کے عادی بن جاتے ہیں۔ حقوقِ اطفال سے متعلق اگر چہ عالمی قوانین موجود ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا جبکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، بڑھتی ہوئی غربت اور صدیوں پرانے استحصالی نظام نے جہاں دوسری قباحتیں پیدا کی ہیں، وہاں لاوارث، غریب اور یتیم بچوں کو بھی ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ وطن عزیز میں آئے روز غریب بچوں پر ظلم و تشدد کے المناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہاں معصوم بچوں اور بچیوں پر بے انتہا تشدد کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں یا تو وہ معذور ہوجاتے ہیں یا ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے اسلامی معاشرے اور مسلمانوں کے حالات جن کی بدولت عالمی سطح پر ہمارے دامن پر بدنامی کا داغ لگ جاتا ہے۔ حالاں کہ اسلام نے معاشرے کے ہر طبقہ کے لیے حقوق کا تعین کیا ہے۔ آنحضرتﷺ نے بچوں کے حقوق پر بہت زور دیا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کو فرض اولین قرار دیا ہے۔ آپ صلعم نے خود حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ کی پرورش کی اور انہیں بہتر تعلیم و تربیت دلائی۔ امام ابوحنیفہ ؒ فقیہ اور عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متمول تاجر بھی تھے۔ آپؒ نے بھی اپنے چند شاگردوں کی کفالت اور تربیت کی۔ آپ کے یہ شاگرد بعد میں آسمانِ علم کے تابندہ ستارے بن گئے۔ تاریخ اسلام میں ایسی زرین مثالیں موجود ہیں کہ زر خرید اور غلام بچوں کی تعلیم اور تربیت کی گئی کہ بعد میں یہ بچے اعلیٰ منتظم، فاتح و جری جرنیل، عالم و فاضل یہاں تک کہ قابل حکمران ثابت ہوئے۔
وطن عزیز میں اس وقت غریب، یتیم اور لاوارث بچوں کی پرورش اور کفالت کے کئی ادارے موجود ہیں، لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ گلی گلی اور بازاروں میں آوارہ، غریب اور بے خانماں بچوں کو ان میں ان کے تعلیم و تربیت کے اہتمام کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت، مخیر حضرات کے تعاون سے ان اداروں کی ترجیحی بنیادوں پر مدد کریں، تاکہ ان اداروں میں زیرِ کفالت بچے معاشرے کے کار آمد اور فعال شہری بن سکیں۔