میکسیکو کے ادب سے ترجمہ شدہ ناول ’’بنجر زمین‘‘

تبصرہ نگار: طارق احمد خان 
’’بعض گاؤں ایسے ہوتے ہیں جن سے بدنصیبی کی بو آتی ہے۔ آپ اُنھیں پہچان لیتے ہیں اُن کی ٹھہری ہوئی ہوا کے ایک جھونکے سے باسی اور نحیف۔ ہر پرانی چیز کی طرح یہ گاؤں اُن میں سے ایک ہے سوزانا!‘‘
اوپر تحریر کیا گیا جملہ اُسی گاؤں ’’کومالا‘‘ کے بارے میں ہے، جہاں ’’حوان پر سیادو‘‘ ماں کی موت سے قبل کیے گئے وعدے کو نبھاتے اپنے باپ ’’پیڈروپرامو‘‘ کو ملنے جا رہا ہے۔ ایک بدنصیب مردہ گاؤں جہاں کبھی رونقیں اور جیتے جاگتے انسان بستے تھے۔ اَب بھٹکتی آوارہ بے چین روحوں، اُن کی آہوں اور سسکیوں کا مسکن ہے۔ ڈان پیڈرو ایک زمانے میں جس کی دست بردسے کومالا کی نہ تو کوئی عورت اور نہ زمین کا کوئی ٹکڑا بچا تھا، وہ بھی اب قصۂ پارینہ ہوچکا ہے۔سوزن سان حوان کے ساتھ اس کی بے انت محبت ہی تو کو مالا کی بربادی اجاڑ اور مردہ ہونے کی وجہ بنی۔
متعلقہ مضامین:
جہاں گرد کی واپسی (تبصرہ)
حوزے ساراماگو کا ناول ’’اندھے لوگ‘‘ (تبصرہ)
کافکا کے افسانے (تبصرہ)
لیو ٹالسٹائی کا ناول ’’جنگ اور امن‘‘ (تبصرہ)
مصری ناول نگار یوسف زیدان کا ناول ’’عزازیل‘‘ (تبصرہ) 
ناول دلچسپ ہے، پر اِس کا اُسلوب کافی مشکل ہے۔ یہ قاری سے پورے ارتکاز اور توجہ کا متقاضی ہے۔ ناول کب حال سے ماضی اور ماضی سے حال کی طرف جاتا ہے، زندوں کے بیان کے درمیان کب مردہ لوگوں اور ان کی بھٹکتی روحوں کا بیان شروع ہوجاتا ہے؟ اس کا پتا ہی نہیں چلتا۔ ایک بار جب قاری اس سب کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، تو کہانی اُسے اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بار حوان رلفو سے پوچھا گیا پیڈرو پرامو کے بعد اُنھوں نے اپنی دوسری کتاب کیوں شائع نہیں کروائی، تو اُن کا جواب ہوتا تھا: ’’اصل بات یہ ہے کہ لکھنے والی کی زندگی کا مقصد ایک عظیم کتاب لکھنا ہوتا ہے۔ وہ کتاب جو زندہ رہے۔‘‘
حوان رلفو نے بھی یہی کیا۔ مرتے سمے ان کے ترکے میں یہ مختصر ناول اور مختصر کہانیوں کا ایک مختصر سا مجموعہ شامل تھا ۔
اِس ناول کا ترجمہ مشہور شاعر جناب احمد مشتاق صاحب کا ہے۔ اِس اُسلوب کو اُردو قالب میں ڈھالنا اور اس خوب صورت انداز میں ڈھالنا، واقعی جان جوکھم کا کام تھا، جس کو احمد مشتاق صاحب نے خوب صورت انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔
حوان رلفو نے ایک بار کہا تھا: ’’میری زندگی میں بہت خاموشیاں ہیں اور میری تحریر میں بھی۔‘‘
بقول اُن کی وہ برسوں اس ناول کو اپنے اندر لیے پھرتے رہے پھر جب تک اُنھیں معلوم نہیں ہوگیا کہ اسے کیسے لکھا جائے، اس کے سیکڑوں صفحے لکھتے تھے اور پھر پھاڑ دیتے تھے اور یہ کہ ناول لکھنے اور پھاڑے جانے کی مسلسل عمل کا نام ہے۔ اسی لکھتے جانے اور پھاڑتے جانے کے عمل سے یہ مختصر ناول ’’پیڈرو پرام‘‘ وجود میں آیا، جسے احمد مشتاق صاحب نے خوب صورت انداز میں ’’بنجر میدان‘‘ کے نام سے اُردو روپ دیا، جو جائز طور پر ایک ماڈرن ڈے کلاسک کہلائے جانے کے قابل ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے