تبصرہ: یاسر رضا 
کہانی سے میرا تعلق کتاب کی صورت استوار ہوا اور گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ بنا کتاب کے دنیا اندھیر لگنے لگتی ہے۔
میرا ذاتی تجربہ کہتا ہے کہ ٹی وی یا موبائل سکرین، تخیل کا کینوس محدود کرتی ہے۔ اس لیے کتاب کے متن میں ڈُبکی لگانا لازمی ہو جاتا ہے۔ اگر کتاب کوئی شاہ کار ہو، تو عین فرض ہوجاتا ہے۔
’’اندھے لوگ‘‘ ناول کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ نوبل پرائز یافتہ ادیب ’’حوزے سارا ماگو‘‘ کا خوف زدہ کردینے والا یہ ناول انسانی تعمیر شدہ کھوکھلے نظام اور تہذیبی اقدار پر بڑا سا سفید رنگ کا سوالیہ نشان بناتا ہے۔ مَیں نے سفید سوالیہ نشان کیوں کہا…… اس کا جواب آپ کو آگے مل جائے گا۔
پہلا خوف زدہ کر دینے والا جملہ گاڑی میں بیٹھے شخص کا ہوتا ہے کہ مَیں اندھا ہوگیا ہوں۔ وہ بتاتا ہے کہ ایک سفید دُھند نے بینائی کی قوت سلب کرلی ہے اور اب میری آنکھوں کے سامنے سفید دُھند کے علاوہ کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں۔ ہے ناں خوف زدہ کر دینے والا انکشاف…… وہاں سے یہ اندھا پن ڈاکٹر کو دبوچتا ہے، کار چور کو پکڑتا ہے اور کالے چشمے والی کو ساتھ لیتا ہوا وارڈ میں لا پھینکتا ہے۔ وارڈ اور معاشرے میں لکیر کھینچ دی جاتی ہے، تاکہ بیماری آگے نہ بڑھ سکے۔ وارڈ کسی قید خانے سے بھی بدتر ہے…… نہ باہر جانے کی اجازت، نہ کھل کر سانس لینے کی آزادی۔ یہاں لکھاری تہذیب و تمدن کا پہنا ہوا نقاب نوچ کر انسان کو اپنی اصل حالت میں پیش کرتا ہے۔ جو بیک وقت بھیانک اور رحم کے قابل ہے۔
وارڈ میں متاثرہ افراد کی تعداد روز بہ روز بڑھنے لگتی ہے اور تین سو افراد سے تجاوز کر جاتی ہے۔ حالات بد سے بدتر ہوتے ہوئے بدترین حالت اختیار کر لیتے ہیں۔ یوں بغاوت جنم لیتی ہے اور آزادی اُن کا نصیب بنتی ہے، مگر ٹھہرئیے، آزادی کس سے، اندھا پن بھی قائم اور پورا شہر تباہ ہوچکا ہے۔ کوڑا کرکٹ ہے، لاشیں ہیں، غلاظت کے ڈھیر ہیں، تو کیا اسے ہم آزادی کَہ سکتے ہیں؟
اندھا پن ایک بندے سے شروع ہوکر سلسلہ وار پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، یہ علامتی بیانیہ ہے۔ اندھا پن کیا ہے؟ انسان دیکھ سکنے کے باوجود بھی وہ سب نہیں دیکھتا جو اُسے دیکھنا چاہیے۔ وبا کے دِنوں میں مصیبت کے وقت انسان کا اصل سامنے آتا ہے۔ اگر وہ منفی جبلت کا مالک ہے، تو قاتل، لٹیرا اور زانی بن جاتا ہے۔ اگر وہ مثبت رجحان والی شفاف روح رکھتا ہے، تو دوسروں کے لیے ہم درد، غم گسار اور مددگار ہوتا ہے۔
یہ ناول ایسا آئینہ ہے جس میں ہر کوئی جھانک نہیں سکتا۔ ناول کا اُسلوب اکہرا نہیں بلکہ تہہ دار ہے اور ذومعنویت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔مکالمے کو بیانیے میں مدغم کیا گیا ہے، جو بیانیے کو روشن کر کے اور دلچسپ بناتا ہے۔ پھر فلسفیانہ ذومعنی جملے الگ سے مزہ دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ احمد مشتاق نے جان دار ترجمہ کیا ہے، اور یہ ناول عالمی ادب سے محبت کرنے والوں کے لیے کسی دل کش تحفے سے کم نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔