مترجم: محمد فیصل (کراچی)
کیوں کہ اُس کی سال گرہ تھی، لہٰذا وہ لڑکا اپنی خواہش ظا ہر کر سکتا تھا۔ ویسے بھی اُس کی زندگی میں خواہشیں کرنے کی گنجایش کم ہی تھی۔ اُسے کھلونے نہیں چاہئیں، وہ بس روز چاول اور لوبیا کھاکھا کر تھک چکا تھا۔ اُس کے والد نے اُسے یاد دلایا کہ تم کبھی کبھارانڈے بھی کھاتے ہو، مگر لڑکا صحیح کَہ رہا تھا۔ اُن کا دوپہر اور رات کا کھانا چاول اور لوبیا پر مشتمل ہوتاتھا۔ لڑکااپنی سال گرہ پر گوشت کھانا چاہتا تھا۔ اُس نے باپ سے کہا کہ گوشت کو میری سال گرہ کا تحفہ سمجھ لیجیے۔ گوشت کا بڑا سا قتلہ، اُبلے ہوئے پیاز اور آلوؤں کے ساتھ۔
ایک دن جب وہ ایک ریستوران کے سامنے ٹافیاں بیچ رہا تھا، تو اُس کی نظر شیشے کی دیوار کے پار بیٹھے ایک شخص پر پڑی جو ریستوران میں براجمان گوشت کے قتلے کھا رہا تھا۔ لقمہ لیتے ہی اُس کے چہرے پر لذت کی ایک لہر دوڑ جاتی۔ وہ بڑی نفاست سے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹتا، پھر اُس کے گرد اُبلی پیاز لپیٹتا اور پھر خوب مزے لے کر کھاتا۔ گوشت اور آلوؤں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ لڑکے نے گویا پوری داستان ہی سنا دی۔ اُس نے گوشت چبانے کی بھی نقل اُتاری اور آخر میں اپنے ہونٹوں پر زبان بھی پھیر کر دکھائی۔ اُس کی دیکھا دیکھی پورا گھر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا، جیسے سب کے منھ میں گوشت کا ذائقہ آرہا ہو۔
بیٹے کی خواہش کے پیشِ نظر باپ نے شام کو اضافی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس کی سال گرہ سے دو ہفتے پہلے اُس نے صبح سے شام تک کام کرنا شروع کردیا۔ اُس نے اپنے آجر سے اُجرت بھی طے کرلی، تاکہ اُس کی سال گرہ تک اتنا پیسا مل جائے کہ وہ اپنے لڑکے کی خواہش پوری کرسکے۔ اُس کی کوشش تھی کہ گوشت کے ساتھ کیک اور کسی کھلونے کی رقم بھی جمع ہوجائے۔ اُس کے بوڑھے مالک نے اُس کے گال تھپتھپائے اور اُسے اضافی کام کرنے کی اجازت دے دی۔
’’تم واقعی اپنے بچوں سے محبت کرتے ہو۔‘‘ مالک نے اُس کی تعریف کی۔ اگلے دن سے اُس نے صبح چار بجے اُٹھنا شروع کر دیا۔ اُٹھتے ہی وہ ٹرین پکڑ کراپنے سٹور پہنچتا، جہاں سامان کی گاڑیاں موجود ہوتیں۔ وہ اُن گاڑیوں سے آٹے، چینی وغیرہ کے کارٹن، پھل اور سبزیوں کے تھیلے اور دیگر سامان اُتار کر سٹور کے اندر رکھتا۔ اُس کے بعد دکان کی صفائی اور پھر گاہکوں کی آمد کے ساتھ ہی دوسری مصروفیت۔ کئی گاہکوں کے گھر تک بھی چیزیں پہنچانی پڑتیں۔ دوپہر کا کھانا (چاول اور لوبیا) اُسے دکان کا مالک کھلاتا اور اُس کے بعد شام تک دکان میں مختلف کام کرتا۔ اضافی کام کی وجہ سے وہ رات 9 بجے تک سٹور میں رُکتا اور مالک کا ہاتھ بٹاتا۔ اُن پندرہ دنوں میں اُس کی ہڈیاں نچڑ کر رہ گئی تھیں، مگر بیٹے کی سال گرہ کے خیال نے اُس کی ہمت بندھائے رکھی۔ وگرنہ اُسے علم تھا کہ اُس کے جسم کو سخت آرام کی ضرورت ہے۔
آخر اُس کی سال گرہ کا دن آگیا۔ وہ حسبِ معمول صبح چار بجے اُٹھا۔ اُس نے بیٹے کا گال چوما، جو اُس وقت سو رہا تھا۔ اُس کے ساتھ اُس کے باقی پانچ بیٹے بھی سو رہے تھے۔ وہ ٹرین میں بیٹھا اور دکان پر پہنچ گیا۔ وہی روزمرہ کی جان لیوا تھکاوٹ اور معمول۔ وہ ٹھنڈے فرش پر بیٹھا چاول کھا رہا تھا، جب اُس کا مالک سنجیدہ شکل بنائے اُس کے پاس آیا اور اُسے بتایا کہ وہ اُسے آج وہ رقم نہیں دے سکتا، جو اُنھوں نے طے کی تھی۔ اُس کے ہاتھ سے ٹفن گرگیا۔ مالک بولے جارہا تھا۔ کئی گاہکوں نے اُدھار نہیں چکایا۔ ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ وقت پر تنخواہیں دینا مشکل ہورہا ہے۔ اُس کے علاوہ ملازموں کے اخراجات بھی پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اُسے علم ہے کہ وہ اتنی محنت اپنے بیٹے کی سال گرہ کے لیے کر رہا ہے، مگر آج وہ اُسے اُس کی اجرت نہیں دے پائے گا۔ اُس کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔ اُسے مالک کے وعدہ توڑنے پر غصہ نہیں تھا ۔ وہ تو لڑکے کے سامنے شرمندہ ہونے کے ڈر سے خود پر غصہ کر رہا تھا۔ اُس نے کھانا وہیں پٹخا اور دُکان کے پچھلے حصے سے ایک چھری اُٹھا کر جیب میں رکھ لی۔
اُس کے اندر غصے کی فصل پکتی رہی اور وہ اُس فصل کو مسلسل پانی فراہم کرتا رہا۔ رات کے 8 بجے اُس کی مالکن گھر چلی گئی۔ وہ اور اُس کا مالک دُکان میں اکیلے تھے۔ اُس کا مالک سارے دن کا حساب کر رہا تھا۔ سٹور میں ایک بلب جل رہا تھا جس کی وجہ سے کئی حصے اندھیرے میں تھے۔ اُس نے جیب سے چھری نکالی اور آہستہ آہستہ اپنے مالک کی طرف بڑھا۔ وہ اپنا حساب آج ہی برابر کرنا چاہ رہا تھا۔ اُس کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ آج وہ اپنے بیٹے کا سامنا کس طرح کرے گا؟ اُس کے مالک کی گردن صاف نظر آنے لگی تھی، مگر اچانک اُس کے ذہن میں اپنے بچوں کی تصویر آگئی…… اُس کے چھے لڑکوں کی تصویر۔ اگر وہ پکڑا گیا، تو اُن کا کیا ہوگا؟ اُن کی قسمت میں بھی یہی ہوگا کہ وہ کوئی جرم کریں اور پکڑے جائیں، یا اُس کے بھائی کی طرح مارے جائیں۔ وہ ساکت ہوگیا۔ اُس میں یہ سب کچھ کرنے کی خواہش ختم ہوگئی۔ اُس نے چھری جیب میں ڈال لی۔ وہ خاموشی سے دُکان سے باہر جانے لگا۔ جب اُس کے مالک نے اُسے پکارا۔ وہ اُس کی طرف بڑھا، تو اُس نے اُسے پچاس روپے پکڑا دیے۔ ’’فی الحال اِن سے کام چلاؤ، جلد ہی تمھار ا حساب بے باق کر دیا جائے گا۔‘‘ مالک نے اُسے تسلی دی۔ ’’اپنے لڑکے کے لیے کچھ لے لینا۔‘‘
مالک کی اجازت سے اُس نے پیاز ، آلو اور دیگر سبزیاں ایک تھیلے میں بھریں اور سر جھکائے باہر نکل گیا۔ برابر کی دکان سے اُس نے ایک درجن سیخ کباب خریدے اور ایک بیکری سے ایک کیک خریدا۔ اُس کے پیسے ختم ہوگئے۔ وہ اِس طرح چل رہاتھا جیسے اُسے کوئی کھینچ رہا ہو۔ اُس کے ذہن میں باربار اپنے لڑکے کی شکل آرہی تھی۔ اُس نے کبھی کباب بھی نہیں کھائے۔ وہ یقینا کباب دیکھ کر خوش ہوجائے گا، بلکہ اُس کے باقی لڑکے بھی خوش ہو ں گے۔ وہ سر جھکائے سٹیشن کے قریب پہنچنے والا تھا کہ اچانک اُس کی نظر ایک اندھیری گلی میں کوڑے دان کے قریب بیٹھے کتے پر پڑی۔ وہ چلتے چلتے رُک گیا۔ وہ اُس کے قریب گیا،تو وہ دُم ہلاتا کھڑا ہوگیا۔ اُس کے کھڑے ہونے کے بعد اُسے علم ہوا کہ وہ کتا نہیں بلکہ کتیا ہے۔ اُس کے ذہن میں کوندے لپک رہے تھے۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ کوڑے دان کے ساتھ ایک بڑا پتھر پڑا تھا۔ اُس نے دو سیخ کباب نکالے اور روشنی سے دور گلی میں پھینک دیے۔ کتیا اُن کی طرف بڑھی اور انھیں کھانے میں مصروف ہوگئی۔ اُس نے فوراََ پتھر اُٹھایا اور پوری قوت سے اُس کے سر پر دے مارا۔ اُس کے منہ سے ہلکی سی کوں نکلی اور وہ گرگئی۔ اُس کا سر خون میں لت پت ہوگیا۔ کتیا نے اُٹھنے کی کوشش کی، مگر اُس نے دوبارہ پتھر مار دیا۔ اُس کے بعد گویا اُس کے جسم میں بجلی بھرگئی۔ اُس نے کوڑے دان سے دو پلاسٹک کے تھیلے لیے اور جیب سے چھری نکال لی اور کتیا کی لاش کے پاس بیٹھ گیا۔
سال گرہ کی دعوت بے حد شان دار تھی۔ ایسا کھانا تو انھوں نے کبھی کھایا ہی نہیں تھا۔ لڑکے کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اُس نے جی بھر کر گوشت کے قتلے کھائے بلکہ پورے خاندان نے قتلے، اُبلی ہوئی پیاز اور آلو کے چپس کے ساتھ کھائے۔ بچوں کو کبا ب بھی بے حد پسند آئے۔ زندگی میں پہلی بار اُن کے ہاں کھانا بچ گیا۔ کھانے کے بعد اُنھوں نے کیک کاٹا۔ پوراخاندان بیک زبان ’’سال گرہ مبارک‘‘ گا رہا تھا۔ اُس کا بیٹا زور سے بغل گیر ہوا۔ ’’بہت شکریہ بابا!‘‘ اُس نے اپنے بچوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’اب تمھیں گوشت کھانے کے لیے سال گرہ کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ اب ہم اکثر گوشت کھایا کریں گے۔‘‘
مصنف کا مختصر تعارف:۔ سرجو تاوارس (Sergio Tavars) سنہ 1978ء کو پیدا ہوئے۔ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اُن کی کہانیاں اور مضامین برازیل کے اہم اخبارات اور جراید میں شائع ہوتے ہیں۔ اُن کے دو ناولوں کو برازیل کا اعلا ادبی اعزاز مل چکا ہے۔ 2005ء میں حکومتی سطح کے فکشن لکھنے کے مقابلے میں اُنھوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔
(سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ کے صفحہ ’’عالمی ادب کے اُردو تراجم‘‘ سے انتخاب)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔