فلسفہ کی تاریخ (تیسرا لیکچر)

تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل لیکچرار کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ مذکورہ سلسلے کا تیسرا لیکچر ہے، مدیر)
٭ قدیم یونان کی تاریخ:۔ قدیم یونانی تاریخ کو ہم چار بُنیادی حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :
1:۔ یونانی ڈارک ایج (The Greek Dark Age)
2:۔ آرکیک دور (The Archaic Period)
3:۔ کلاسیکل دور (Classical Period)
4:۔ ہیلینسٹیک دور (Hellenistic Period)
اب سب سے پہلے آتے ہیں ’’یونانی ڈارک ایج‘‘ کی طرف۔ ڈارک ایج تقریباً 1200 قبلِ مسیح سے 800 قبلِ مسیح تک جاری رہتا ہے اور اس کو ڈارک ایج اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے بارے کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں، یعنی ہمیں کچھ پتا نہیں کہ اس دور کے اندر کیا ہوا تھا اور کیا خیالات و رجحانات ہوا کرتے تھے؟
تقریباً 800 قبلِ مسیح میں ہمیں پہلی بار "Homer” اور "Hesiod” کے وہ ورکس "Iliad” اور "Odyssey” وغیرہ مل جاتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ہمارے پاس پہلی دفعہ تاریخی ریکارڈ آتا ہے کہ جس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ قدیم یونانی سوچ کیا تھی…… جس کو پھر ہم ’’آرکیک دور‘‘ کہتے ہیں، جو 80 0 قبلِ مسیح سے 500 قبلِ مسیح تک جاری رہتا ہے۔ 500 قبلِ مسیح سے لے کر 323 قبلِ مسیح تک جو کہ سکندر اعظم (Alexander) کی موت کی تاریخ ہے، ایک اگلا دور یعنی ’’کلاسیک دور‘‘ شروع ہوتا ہے، جس میں افلاطون، سقراط اور ارسطو آتے ہیں۔ یہ دور تاریخ کا ایک ’’گولڈن‘‘ (Golden) حصہ ہے، جس میں یونانی فلسفے کو فروغ ملتا ہے۔ آخری دور کو ہیلینیسٹک دور کہا جاتا ہے، جو سکندرِ اعظم کی موت کے بعد شروع ہوتا ہے، یعنی 32 3قبلِ مسیح سے تقریباً 146 قبلِ مسیح تک۔
٭ آرکیک دور (The Archaic Period):۔ عام لوگوں کا یہ تاثر ہے کہ قدیم یونانی تہذیب کا تعلق مغرب سے ہے۔ ہے بھی، مگر یونانی تہذیب عروج پر نہ پہنچتی اگر اس پر مشرق (East) کا اثر نہ ہوتا۔ خاص طور پر ’’ایسرینز‘‘ (Assyrians) کا اثر، ’’فونییشینز‘‘ (Phoenicians) اور مصر کا بہت گہرا اثر ہے…… بلکہ ’’فونییشینز‘‘ نے ہی سب سے پہلے لکھائی ایجاد کی اور یونانیوں نے بھی وہی لکھائی ’’فونییشینز‘‘ سے لی۔ لکھائی کے نتیجے میں سب سے پہلے وہ ورکس (Works) تیار کیے گئے، جو یونانی مذہبی نقطۂ نظر کو بیان کرتے ہیں۔
’’ہومر‘‘ (Homer) اور ’’ہیسیوڈ‘‘ (Hesiod) دو ایسے افراد تھے کہ جنھوں نے شاعری کے انداز میں ان خیالات و رسومات کو درج کیا جو کہ یونانی تہذیب کا حصہ تھی۔
’’ہومر کے ورکس‘‘ (Works of Homer):
٭ ایلیڈ اور اوڈیسی (The Iliad and the Odyssey)
’’ہیسیوڈ کے ورکس‘‘ (Work of Hesiod):
٭ ’’ورکس اینڈ ڈیز‘‘ (Works and Days)
٭ ’’تیوجینی‘‘ (Theogony)
٭ ’’شیلڈ آف ہیریکلی‘‘ (Shield of Heracles)
یہ ورکس قدیم یونان کے لوگوں کے لیے وہ حیثیت رکھتے تھے جو آج مسلمانوں کے لیے قرآن اور عیسائیوں کے لیے انجیل حیثیت رکھتی ہے۔
تاریخ میں پہلی بار اولمپک (Olympic)، 776 قبلِ مسیح میں منعقد ہوئی۔ یہ وہ تاریخ ہے جس میں ’’ڈارک ایج‘‘ ختم ہوتی ہے اور ایک نیا دور یعنی ’’آرکیک دور‘‘ (The Archaic Period) شروع ہوتا ہے۔
یونانی لوگ دراصل ’’پولیتیئسٹس‘‘ (Polytheists) تھے، یعنی ان کے کئی دیوتا یا خدا ہوا کرتے تھے، جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ ان کے 14 دیوتا تھے، جنھیں "Olympian gods” کہا جاتا ہے اور ان کے مزید 370 دیوتا تھے، جو اس کی پرستش کرتے تھے۔ جو ان کے "Olympian gods” تھے، اُن کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اُن میں انسانوں جیسی خصوصیات تھیں۔ مثال کے طور پر وہ برائی بھی کرتے تھے اور اچھائی بھی۔ جو دیوتا کا بادشاہ تھا، اُس کا نام تھا "Zeus” اور جو "Zeus” کا بھائی تھا، اُس کا نام تھا "Hades” جو بالکل اُس کے مخالف کھڑا تھا اور وہ ’’انڈر ورلڈ‘‘ (Under World) میں رہتا تھا۔
اس طرح "Hera” شادی کی دیوتا تھی۔ "Aphrodite”پیار کی دیوتا، "Aries” جنگ کی دیوتا، "Apollo” لائٹ کی دیوتا، "Poseidon” سمندر کی دیوتا اور اس طرح مختلف دیوتاؤں کا تعلق مختلف چیزوں سے تھا۔
یونانیوں کا یہ خیال تھا کہ دنیا میں انسان پر مصیبت تب آتی ہے، جب انسان ان دیوتاؤں کی پرستش چھوڑ دے۔
ان کا خیال تھا کہ جب انسان ان دیوتاؤں کی پرستش چھوڑ دے، تو ان دیوتاؤں کی پاؤر (Power) کم ہوجاتی ہے اور ان کی انسانوں کی دیکھ بھال میں دلچسپی نہیں رہتی۔
یونانیوں کا یہ بھی خیال تھا کہ انسانوں کے دو قبیلوں، دو ریاستوں یا دو فوجوں کے درمیان جنگ کی وجہ بھی دو دیوتاؤں کے درمیان تضاد کی وجہ سے ہوتی ہے۔
٭ ’’کلاسیکل دور‘‘ (Classical Period):۔ کلاسیکل دور 500 قبلِ مسیح میں شروع ہوا۔ یہی وہ دور تھا جس میں نئی پیداواری قوت کے نتیجے میں زیادہ پیداوار پیدا ہوتی ہے اور بہت زیادہ خوش حالی آتی ہے۔ یہی وہ دور ہے جس کے اندر آبادی پانچ گنا بڑھ جاتی ہے اور نئی پیداوار اور آبادی میں اضافے کے نتیجے میں نیا لٹریچر، نئے آرٹس اور نئے علوم پیدا ہوتے ہیں۔
اس طرح جو سیاسی ڈھانچا تھا، اُن میں چھوٹے چھوٹے شہر تھے اور اُن کی اپنی اپنی حکومت ہوا کرتی تھی۔ ان چھوٹے چھوٹے شہروں کا کوئی مذہب نہیں تھا۔ کیوں کہ لوگ مختلف دیوتاؤں کی پرستش کرتے تھے اور ایک مشترکہ مذہب نہیں تھا۔ اس لیے ایک مذہبی ریاست بنانا ممکن نہیں تھا۔ ان کے درمیان کوئی اتفاق نہیں تھا اور اکثر و بیشتر آپس میں لڑتے رہتے تھے۔
دو سب سے اہم جو ریاستیں تھیں، وہ ’’ایتھنز‘‘ (Athens) اور ’’اسپارٹا‘‘ (Sparta) تھیں، جس کا ریاستی ڈھانچا بنیادی طور پر غلام داری نظام پر کھڑا تھا۔ اُنھوں نے "Non-Greek” لوگوں کو اپنا غلام بنایا تھا اور وہ چھوٹے اور بڑے کام ان سے کرواتے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان سوسائٹیز (Societies) کو کم ازکم تین حصوں یا طبقات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ وہ تین قسم کے طبقات ذیل میں ملاحظہ ہوں:
1:۔ اریسٹاکریسی (Aristocracy)
2:۔ فری مین یا ڈماس (Freeman/ Demos)
3:۔ غلام (Slaves)
یعنی ایک وہ طبقہ تھا جس کو ’’ارسٹوکریسی‘‘ (Aristocracy) کہا جاتا ہے، جو غلاموں کے آقا تھے۔
جو دوسرا طبقہ تھا، اُسے "Freeman” یا یونانی زبان میں "Demos” کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو نہ خود غلام تھے اور نہ اُن کے کوئی غلام تھے۔
"Demos” کے نیچے جو طبقہ تھا، وہ غلام ہوا کرتے تھے، جو ’’ارسٹوکریسی‘‘طبقے کے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ تو ’’اسپارٹا‘‘ کے اندر تقریباً آدھے سے زیادہ لوگ غلام تھے اور وہ زرعی اور گھریلو دونوں کام کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ’’ایتھنز‘‘ (Athens) میں اس سے بھی زیادہ غلام تھے، مگر اسپارٹا اور ایتھنز میں فرق یہ تھا کہ ایتھنز میں "Demos” کے پاس ایک ’’نیوی‘‘ (Navy) تھی جس میں فری لوگ (Demos) کام کیا کرتے تھے، جو نہ غلام طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور نہ اریسٹوکریسی طبقے سے۔ چوں کہ "Demos” کا نیوی میں ایک اہم کردار تھا، تو اس کے نتیجے میں ان کا سیاست اور ریاستی اُمور میں بھی ایک اہم کردار تھا۔
یاد رہے اسپارٹا اور ایتھنز کا جو سیاسی نظام تھا، وہ بالکل مختلف تھا۔
اسپارٹا میں جو ارسٹوکریسی (آقا) والا طبقہ تھا، وہ مکمل طور پر سیاست پر قابض تھا، لیکن دوسری طرف ایتھنز میں ارسٹوکریسی اور ڈماس کے درمیان ایک قسم کا سمجھوتا تھا اور اس سمجھوتے کے نتیجے میں ہی پولی ٹیکل سسٹم (Political System) کو ڈیموکریسی (Democracy) کہا جاتا تھا۔
ڈیموکریسی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایتھنز کے لیے ڈماس (Demos) اہم تھے اور ان کا اہم کردار تھا۔
یہ بھی یاد رہے اس ڈیموکریسی میں غلاموں اور عورتوں کا کوئی کردار نہیں تھا اور نہ ان لوگوں کا کوئی کردار تھا، جو یونان سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جو پورا غلام داری کا نظام تھا، اِس غلام داری نظام کا یونان (Greek) پر ایک بڑا ثقافتی اور نظریاتی اثر تھا۔ وہ یہ کہ ہاتھ سے کام کرنے والے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان لوگوں کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جو تجارت کیا کرتے تھے، یعنی حتی کہ تجارت کو بھی غلامی سے منسلک کیا گیا تھا۔
صرف ان لوگوں کو زیادہ اچھا اور محترم سمجھا جاتا تھا، جو دماغ سے کام کیا کرتے تھے، جو دانش ور تھے اور جو خالص فلاسفرز ہوا کرتے تھے۔
پہلا اور دوسرا لیکچر بالترتیب پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کیجیے:
1)  https://lafzuna.com/history/s-33204/
2)  https://lafzuna.com/history/s-33215/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے