یوگِک کلچر (Yogic Culture) میں ایک تصور ہے جسے ’’نامکمل کرما‘‘ (Incomplete Karma) کہتے ہیں۔ اس میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کی کچھ خواہشات ہوں اور وہ ادھوری رہ جائیں، تو آپ کا ذہن اُنھیں نہیں بھولتا۔ اسے اُنھیں مکمل کرنا ہوتا ہے۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
مثال کے طور پر آپ کو کوئی لڑکا/ لڑکی پسند آئے، یا پھر آپ سے غلطی ہوئی اور آپ کو معافی مانگنی تھی، لیکن آپ نے نہیں مانگی، یا پھر کسی چیز کو حاصل کرنے کی خواہش جاگی، وہ وقت کے ساتھ پوری نہ ہوئی اور آپ بھول گئے …… لیکن آپ کا ذہن نہیں بھولتا۔ جب بھی اُس خواہش اور اُس انسان سے متعلق کوئی تکلیف دِہ بات سامنے آتی ہے، تو وہ اُسے یاد کرتا ہے، وہ کہیں نہ کہیں اُس کرما کو پورا کرنا چاہتا ہے۔
اب آئیے، اس یوگِک تصور کو ہم سائنس کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
چوں کہ ہمارا دماغ لاشعوری طور پر ہمارے نامکمل ٹاسک ہمیں یاد دلاتا رہتا ہے، تاکہ ہم کچھ بھول نہ جائیں اور وقت پر کام مکمل کرلیں اور تبھی وہ ادھوری خواہش یا ادھوری محبت آپ کا ایک نامکمل ٹاسک ہے، جو آپ کا ذہن آپ کو کسی نہ کسی موقع پر یاد دلاتا ہے کہ اسے پورا کرو۔ جتنے زیادہ نامکمل کرما ہوں گے، زندگی میں اُتنا ہی زیادہ آپ کا معرفت کا بوجھ (Cognitive Load) بڑھتا جائے گا۔ جتنے نامکمل کرما، اتنا ہی زیادہ آپ ذہنی طور پر مفلوج ہوتے جائیں گے۔ یوں ہی جتنے زیادہ نامکمل خواب اور آئیڈیاز ہوں گے، اُتنا ہی آپ اُن خوابوں اور تصوارت کی دنیا میں کھوتے جائیں گے۔ حقیقت میں آپ سے اُن خوابوں کو انجام تک پہنچانے کا کام نہیں ہوگا۔
یہی ہوتا ہے عموماً اُن لوگوں کے ساتھ جن کی خواہشات، خواب اور آئیڈیاز ضرورت سے زیادہ ہوتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ خواب دیکھنے کے پیسے نہیں لگتے، بڑے خواب اور زیادہ خواب دیکھو……! زیادہ اور بڑے خواب دیکھنے کی بہت بڑی قیمت ہوتی ہے، جو آپ کا ذہن ادا کرتا ہے اور پھر آپ ادا کرتے ہیں ان خوابوں کو تعبیر تک نہ پہنچا کر۔ یوں کئی خواب دیکھنا اور پھر اُنھیں نامکمل رکھنا آپ کو صرف خواب دیکھنے والا بناتا ہے، ان کی تعبیر کرنے والا (Doer) نہیں بناتا۔
اکثر کئی سارے نامکمل ٹاسک اور ادھورے خواب ہمیں مفلوج رکھتے ہیں اور جب ہم کچھ کرنے کے متعلق سوچتے ہیں، تو اضطراب (Anxiety) ہوتی ہے، اور پھر ہم کسی بھی تفریح یا سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا دھیان اُن ادھورے خوابوں سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کبھی پراسس نہ ہونے والے تکلیف دہ جذبات (Unprocessed Difficult Emotions) ہمیں ماضی کے ٹروما میں پھنسا کر رکھتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان نامکمل کرما کو کیسے پورا کیا جائے ؟ اس کے لیے ایک مشق درکار ہے، اور یہ مشق کرنا آسان نہیں۔ کیوں کہ آپ نے اُن ادھورے خواب، رشتوں، خواہشات کو جانے دینا ہے جن سے آپ جذباتی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ یہ آسان کام نہیں۔ کیوں کہ آپ اُن چیزوں کو نہیں چھوڑنا چاہتے۔ کیوں کہ اُن سے آپ کا لگاو ہے، لیکن خوابوں اور نامکمل ٹاسک کا انبار آپ کو مفلوج کررہا ہے۔ اس لیے آپ کو اس کا حل نکالنا ہوگا۔
آپ نے ایک کاغذ لینا ہے…… اور کاغذ پر دو کالم بنانے ہیں۔ پہلے کالم میں وہ خواب، خواہشات، لوگوں کا نام (یا پھر کچھ بھی) لکھیں، جنھیں حاصل کرنے کے لیے آپ کوشاں تھے، لیکن وہ ادھورے ہیں اور پھر بھی آپ اُن سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ نامکمل کرما اب کبھی پورے نہیں ہوسکتے۔ ان کا وقت جاچکا ہے یا پھر وہ آپ کی موجودہ سکت سے کئی گنا بڑھ کر ہیں۔
دوسرے کالم میں وہ سب لکھیں، جو آپ آج بھی حاصل کرنے یا پھر ان پر کام کرنے (یا پھر اُس ایک انسان سے معافی مانگنا یا اُسے فون کرنا وغیرہ یہ سب بھی نامکمل کرما میں شامل ہے) کی حالت میں ہیں، اور ان نامکمل کرما پر کام کرنا اب بھی ممکن ہے۔
اب آپ نے پہلے کالم والے خوابوں پر ایک ایک کرکے لکیر یں کھینچنی ہیں اور اُنھیں کاٹ دینا ہے کہ یہ مکمل نہیں ہوسکے یا نہیں ہوسکتے، کچھ چیزوں پر لکیر کھینچتے ہوئے آپ کو رنج ہوگا، دکھ ہوگا، شاید رونا بھی آئے۔ آپ نے رونا ہے، رنج اور دُکھ کو قبول کرنا ہے اور اُنھیں اپنی زندگی سے نکال دینا ہے، اور اِس بات کو قبول کرنا ہے کہ یہ سب اب کبھی واپس نہیں آسکتا…… یا مَیں انھیں حاصل نہیں کرسکتا۔
دوسرے کالم میں موجود جو چیزیں ہیں۔ اُن میں سے بھی کچھ چیزوں پر لکیر کھینچیں۔ اُسے مزید کم کریں، جو غیر ضروری ہیں۔ جتنی کم چیزیں لسٹ میں ہوں گی، اُتنا ہی آپ کا معرفت کا بوجھ (Cognitive Load) کم ہوتا جائے گا۔ کم ٹاسک ہوں گے، تو آپ کا ذہن مفلوج نہیں ہوگا۔ کیوں کہ زیادہ ’’ٹاسک‘‘ ہمیں مفلوج کردیتے ہیں۔
جب لوگ اپنی لسٹ میں سے ٹاسک کم کر لیتے ہیں اور روز موجودہ چند ٹاسک پر کام کرتے ہیں، تب اُنھیں بہتری نظر آنے لگتی ہے آہستہ آہستہ۔ جس طرح زیادہ چوائس آپ کو مفلوج کردیتی ہے۔ اُس کے برعکس کم چوائس آپ کو رفتار (Momentum) دیتی ہے، جب کام مکمل ہونے لگتے ہیں، تو دماغ کے پاس مثبت ڈیٹا اور انفارمیشن آتی ہے اور پھر آپ میں اعتماد بحال ہونے لگتا ہے۔ یہ سب ایک ’’پراسس‘‘ کے تحت ہوتا ہے۔
آپ کا دماغ یہ بولنے سے کام نہیں کرتا کہ ’’تم کر دکھاؤ‘‘، ’’ڈٹ جاؤ‘‘ وغیرہ وغیرہ، بلکہ دماغ ایک پراسس کے تحت کام کرتا ہے۔ اس تکنیک کی سب سے بڑی اور اچھی مثال امریکہ میں ایک پروگرام ہے، جس کا نام ہے ’’الکوحلک انانیمس‘‘ (Alcoholics Anonymous) اس پروگرام میں شراب یا نشہ کی لت سے جان چھڑانے کے لیے بارہ قدم (1 2Steps) ہوتے ہیں، جس میں ایک قدم پر کہا جاتا ہے کہ دورانِ نشہ آپ نے جن لوگوں کے ساتھ بد تمیزی کی، یا جنھیں تکلیف پہنچائی، یا جو کام ادھورے رہ گئے، اُن کو جاکر پورا کرکے آئیں۔ پھر آگے کے قدم لیے جاتے ہیں۔ کیوں کہ اُنھیں معلوم ہے کہ جب تک معرفت کا بوجھ (Cognitive Load) کم نہیں ہوگا، آگے بڑھنا ممکن نہیں۔
جناب! دماغ ہمیشہ پراسس سے چلتا ہے اور اگر کوئی ایک قدم بھی ادھورا رہ جائے، تو شفایاب ہونے کا چکر مکمل نہیں ہوتا۔ امریکہ کا یہ پروگرام بہت کامیاب اور بہترین ہے۔
یہ میرا ذاتی تجربہ ہے، میری لسٹ میں بھی کئی سارے نامکمل کرما تھے۔ کچھ ادھورے کرما پورے ہوگئے، کچھ کبھی پورے نہیں ہوسکتے۔ اُن پر مَیں نے لکیر کھینچ دی۔ کیوں کہ وہ کبھی مکمل نہیں ہوں گے اور ابھی بہت کم ٹاسک میری لسٹ میں ہیں۔ ان کو بھی مزید کم کرنے کی کوشش جاری ہے۔
یہ لسٹ آپ کو شاید کئی بار بنانی پڑے۔ اسے بار بار بنائیں اپنی یاد دہانی اور ذہن پر سے نامکمل معاملات کا بوجھ ہٹانے کے لیے ۔ وقت کے ساتھ آپ کا ذہن جب فوکس بنالے گا چند کاموں پر، تو ماضی کے نامکمل کام اور وعدوں سے آزاد ہونے لگے گا۔
قارئین! یہ پراسس آہستہ ہے، لیکن بہت کارآمد ہے۔ لسٹ بنا کر نامکمل ٹاسک پر لکیر کھینچنا ایک تھراپی کی طرح کام کرتا ہے۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ جیسے بوجھ کم ہونے لگا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔