کیفی اعظمی کا 10 جنوری 2002ء کو جب انتقال ہوا، تو ان کی عمر 83 برس تھی۔ انھوں نے بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
14 جنوری 1919ء میں مجواں گاؤں ضلع اعظم گڑھ میں، اُتر پردیش کے ایک مذہبی گھرانے میں سیّد فتح حسین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سیّد اطہر حسین رضوی رکھا گیا۔ والد کے ہاں کل 11 بچوں نے جنم لیا جن میں سے اُن کا نمبر آٹھواں تھا۔ اُن سے بڑی چار بہنیں تپ دق (ٹی بی) کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہوگئیں، تو والد صاحب نے یکے بعد دیگرے پیش آنے والے ان صدمات کا گہرا اثر لیا۔ اُن پر زندگی کی بے ثباتی پوری حقیقت کے ساتھ واضح ہو گئی۔ انھوں نے اطہر حسین کو مذہبی تعلیم دلانے کا سوچا، تاکہ اُن کی وفات کے بعد اُن کے لیے فاتحہ پڑھ سکے اور اُن کی بخشش کی دعائیں کرسکے…… مگر ہوا اس کے برعکس، کیفی لکھنؤ کے مدرسہ سلاطان المدارس میں فاتحہ سیکھنے گئے تھے، مگر ڈیڑھ برس بعد اُس مدرسے پر فاتحہ پڑھ کر نکلے۔ انھیں مدرسے کا ماحول اور اس میں کئی طرح کی اخلاقی و انتظامی خرابیاں نظر آئیں، تو طلبہ کی یونین بنا ڈالی اور اس یونین کے توسط سے انتظامیہ کے سامنے مطالبات رکھ دیے۔ اُن کے کہنے پر مدرسے میں طلبہ نے مطالبات کے حق میں ہڑتال کر دی، جو ڈیڑھ سال تک چلی۔ اس دوران میں پُرجوش نظمیں لکھ لکھ کر کیفیؔ اپنے ساتھیوں کا جوش بڑھاتے رہے۔ ڈیڑھ سال بعد جب مدرسہ دوبارہ کھلا، تو کیفیؔ کا نام خارج کر کے وہاں سے نکال دیا گیا۔ کیفیؔ کو شاید اب وہاں رُکنے میں دلچسپی بھی نہیں رہی تھی۔ انھوں نے اس کے بعد لکھنؤ اور اِلہ آباد یونیورسٹیوں سے فارسی میں دبیر اور عربی میں عالم کی اسناد حاصل کیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ اپنی ایک شاگرد لڑکی کی محبت میں مبتلا ہوئے، مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور لکھنؤ میں اُن پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا، یوں وہ کانپور چلے گئے۔
کانپور میں اُن کی زندگی کا نیا اور انقلابی دور شروع ہوگیا۔ اُن دنوں کان پور شمالی ہندوستان میں مزدوروں کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ کیفی اُس تحریک کا حصہ بن گئے۔ مارکسزم کے مطالعے نے انھیں پکا کمیونسٹ بنا دیا اور وہ کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی رکن بن گئے۔ کمیونسٹ تحریک کی نمایندگی کرتے ہوئے مزدوروں میں رہ کراپنی نظموں کے ذریعے اُن کا لہو گرمانے لگے۔
1943ء میں کیفیؔ اعظمی کا پہلا مجموعۂ کلام شائع ہوا۔ مشاعروں میں تواتر سے شریک ہوتے رہے۔ سال 1947ء میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے وہ حیدرآباد پہنچے، جہاں ان کی ملاقات شوکت خانم سے ہوئی۔ یہ ملاقات پسندیدگی اور پسندیدگی چاہت میں تبدیل ہوگئی۔ دونوں کے خاندانوں کی باہم رضامندی سے 23 مئی 1947ء کو یہ جوڑی رشتۂ ازدواج میں بندھ گئی۔ اُسی سال پاکستان بن گیا۔ والد اور بھائی پاکستان چلے گئے، مگر کیفیؔ نے ہندوستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
شادی سے پہلے کیفیؔ لااُبالی انسان تھے۔ انھیں کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ماہانہ 45 روپے ملتے تھے، جو اُن کی محدود ضروریات کے لیے کافی تھے، مگر شادی کے بعد اخراجات کا بڑھنا لازمی امر تھا۔ کیفیؔ نے ایک اُردو اخبار کے لیے 150 روپے ماہوار پر لکھنے کا کام شروع کیا۔ وہ اُردو اخبار کے لیے طنزیہ اور مزاحیہ شاعری لکھنے لگے۔ ان کے ہاں شبانہ (مشہور بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی) پیدا ہوئیں، تو اخراجات مزید بڑھ گئے، چناں چہ انھوں نے فلموں کے لیے گیت نگاری کا فیصلہ کر لیا۔ سب سے پہلے شاہد لطیف نے اُن سے اپنی فلم ’’بزدل‘‘ کے دو گیت لکھوائے اور 1000 روپے معاوضہ دیا۔ اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا اور کیفی اعظمی جو کہ ترقی پسند شاعری کے حوالے سے فیضؔ اور مخدومؔ کے بعد تیسری اہم ترین آواز سمجھے جاتے تھے، ایک بڑے فلمی شاعر کے روپ میں سامنے آئے۔ اُنھیں فلموں میں غیرمعمولی شہرت اور کامیابی ملی، جس نے اُنھیں فکرِ معاش سے آزاد کر کے آسودگی بخشی۔ وہ فلمی دنیا کے اُن چند گنے چنے ادیبوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے فلمی گیتوں کے علاوہ فلموں کی کہانیاں، منظر نامے اور مکالمے لکھے۔ ہندوستان کی بلاک بسٹر اور شاہ کار فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کی کہانی کے علاوہ مکالمے بھی کیفی اعظمی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ اس فلم کے مکالموں کی خصوصیت یہ ہے کہ پوری فلم کے مکالمے منظوم ہیں۔ فلم کے تمام مکالمے منظوم لکھنا کیفیؔ اعظمی کا بے مثال اور لازوال کارنامہ ہے۔ نہ ان سے پہلے یہ کارنامہ کسی نے انجام دیا اور نہ بعد میں یہ مشکل کام کسی کے حصے میں آیا۔ انھوں نے لاتعداد فلموں کے گیت اور مکالمے لکھے جن میں ’’بزدل‘‘، ’’کاغذ کے پھول‘‘، ’’ہیر رانجھا‘‘، ’’گرم ہوا‘‘، ’’سات ہندوستانی‘‘، ’’پاکیزہ‘‘، ’’ہنستے زخم‘‘ اور ’’ارتھ‘‘ کے نام سرِ فہرست ہیں۔
کیفیؔ کے مقبول فلمی گیتوں میں ’’وقت نے کیا، کِیا ستم، تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم‘‘، ’’یونہی کوئی مل گیا تھا، سرِ راہ چلتے‘‘، ’’یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں‘‘، ’’ملو نہ تم تو ہم گھبرائیں، ملو تو آنکھ چرائیں، ہمیں کیا ہوگیا ہے‘‘، ’’تم اتنا جو مسکرا رہے ہو، کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو‘‘، ’’آج سوچا تو آنسو بھر آئے، مدتیں ہو گئیں مسکرائے‘‘، ’’دھیرے دھیرے مچل اے دلِ بے قرار کوئی آتا ہے‘‘، ’’ملے نہ پھول تو کانٹوں سے دوستی کرلی‘‘، ’’دو دل ٹوٹے دو دل ہارے‘‘، ’’بہارو! میرا جیون بھی سنوارو!‘‘ شامل ہیں۔
کیفیؔ اپنی امر ہو جانے والی نظموں ’’خانہ جنگی‘‘، ’’بہروپنی‘‘، ’’عورت‘‘، ’’چراغاں‘‘، ’’بام بل‘‘ اور ’’دوسرا بن باس‘‘ کی وجہ سے ترقی پسند شاعری کی تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔
اُردو شاعری کے فروغ کے لیے اَن تھک کام کرنے پر کیفیؔ کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، ساہتیہ اکیڈمی فیلو شپ، پدم شری، نیشنل فلم ایوارڈ، فلم فیئر ایوارڈ، اُتر پردیش اکادمی ایوارڈ اور سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی شاعری کے مجموعے ’’آخرِ شب‘‘، ’’آوارہ سجدے‘‘، اور ’’سرمایہ‘‘ ہمیں ان کی موجودگی کا ہمیشہ احساس دلاتے رہیں گے۔
اُردو کا یہ عظیم شاعر 83 برس کی عمر میں 10 مئی 2002ء کو ممبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا۔رہے نام اللہ کا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔