مجھے کتاب "Why Men Marry Bitches” سے بہت سے اعتراضات ہیں۔ مَیں دوسروں کے پیچھے بھاگنے یا انھیں اپنے پیچھے دوڑنے پر مجبور کرنے والے فارمولے پر بالکل یقین نہیں رکھتی۔ اس لیے نہیں کہ یہ اچھی یا بری بات ہے…… بلکہ اس لیے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مَیں کھراپن (Authenticity) اور بے ساختگی (Spontaneity) پر یقین رکھتی ہوں، اور اگر آپ اپنی تربیت کرنا چاہتے ہیں، تو اس ارادے سے کرنے سے گرہیز کریں کہ مَیں تو اسے اپنا دیوانہ بنا کر ہی رہوں گی/ گا وغیرہ وغیرہ ۔ اس نیت کے ساتھ زیادہ عرصہ نہیں چل پائیں گے…… اور شادی جیسے رشتے میں تو کبھی نہیں چل پائیں گے (ضروری نہیں کہ مَیں درست ہوں۔)
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
لیکن ہر کتاب کی مانند اس میں بھی کچھ باتیں اچھی کہی گئی ہیں۔ ویسے مغرب کی ابھی والی صورتِ حال کے مطابق یہ کتاب اور اس میں موجود کئی مشورے پرانے اور فرسودہ (Outdated) ہیں، لیکن کچھ باتیں جو مَیں شیئر کروں گی اور ابھی اور آنے والے دور میں بھی یقینا کارآمد ہیں، مشرق اور مغرب دونوں کے لیے۔
ہمارے معاشرے میں کئی عورتوں نے اپنی ماؤں کو ابا حضور کے حکم بجا لاتے دیکھا ہے، فرماں برداری کرتے دیکھا ہے اور ابا کو جذباتی طور پر سرد ہی پایا ہے۔ جب لڑکیاں اس قسم کا ریلیشن شپ ماڈل دیکھ کر بڑی ہوتی ہیں، تو ان کے ذہن میں یہ واضح نہیں ہوتا کہ کہاں تعاون کرنا ہے اور کہاں مزاحمت (Resist) کرنا ہے اور کہاں حدود (Boundaries) مقرر کرنی ہیں۔ ہماری خواتین ہر وقت منحصر رہتی ہیں اپنی زندگی میں موجود مردوں پر۔ انھیں لگتاہے کہ اگر نظر نہ رکھی، تو ہم انھیں کھو دیں گے ، اگر خوش نہ کیا، تو یہ ہمیں پسند نہیں کریں گے۔
یہ کتاب جس قسم کی آڈینس کے لیے لکھی گئی ہے، وہ بہت اچھی، مردوں کا خیال رکھنے والی، ان کے آگے قالین بننے والی اور اس مشورے پر عمل کرنے والی کہ مرد صرف کھانے اور جنسی سرگرمیوں کے شوقین ہوتے ہیں (شاید کسی حد تک)، مردوں کو مٹھی میں کرنے والے عجیب و غریب فارمولے بنانے والوں کے لیے ہے۔ کیوں کہ ’’شیری آرگو‘‘، جو کہ کتاب کی لکھاری ہیں، کا ماننا ہے کہ حقیقت ان تمام فرسودہ خیالات کے برعکس ہے دوستو!
لیکن کتاب کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ آپ کو اگر مردوں کے سامنے قالین بننے سے روکتی ہے، تو آپ کو اس کی جگہ سخت فیمنسٹ (Rigid Feminist) نہیں بناتی…… اور اس کی یہی بات اسے پاکستانی عوام کے لیے موزوں (Suitable) بناتی ہے۔ چوں کہ ہم اب بھی ان اقدار کے زیرِ اثر ہیں جہاں مردوں کا راج ہے، اور یہاں پر بغاوت نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اور عملی تبدیلی لانے کی گنجایش موجود ہے۔ اگر کلچر کے بالکل خلاف جائیں گے، تو فائدہ کی بجائے نقصان اٹھائیں گے اور ہر کلچر کی ساری باتیں بری نہیں ہوتیں۔ ہمارے مشرقی کلچر کے فوائد بھی بیش بہا ہیں، لیکن کچھ معاملات میں بہتری لانے کی شدید ضرورت ہے۔
مرد اور عورت دونوں ہی بہت پیچیدہ ہیں۔ سب کو ایک ہی خانہ میں ڈال کر لیبل کرنا درست نہیں۔ ہر انسان مختلف ہے۔ بے شک کچھ رویے اور نفسیات بنیادی (Fundamental) ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں ایک دوسرے کو غیر جانب دار ہوکر سننا اور سمجھنا چاہیے۔
ہماری خواتین پڑھ لکھ گئیں، ڈگریاں بھی لے لیں، مالی اعتبار سے آزاد بھی ہوگئیں…… لیکن ان کی زندگی میں اچھے ’’ری لیشن شپز‘‘(Relationships) موجود نہیں اور اس کی وجہ ہمارے پاس ایسے رول ماڈل کا موجود نہ ہونا ہے جو ہمیں رشتوں کی حقیقت بتائیں۔ ہمارے ساتھ ایمان دارانہ طریقے سے اپنا دانش (Wisdom) شیئر کریں۔ ایک رشتہ میں کیا ضروری ہے اور کیا نہیں…… کیسے ایک دوسرے کو اسپیس (Space) دینا ہے…… کیسے شادی کے بعد بھی اپنی ایک الگ شناخت (Identity) قائم رکھنی ہے…… یہ کوئی نہیں بتاتا۔ گھریلو سیاست اور ایک دوسرے کو کنٹرول کرنے کی ایک عجیب روایت قائم ہے ہمارے گھروں میں۔ سچ، تعاون، بھروسا، بات چیت، ہم دردی، ایک دوسرے کو سمجھنا، وقت دینا، اسپیس دینا…… ایسے اقدار (Values) کا فقدان ہے ۔
اس کتاب میں موجود لفظ ’’بچ‘‘ (Bitch) کوئی گالی نہیں،اس کا مطلب ہے: "Babe In Control Of Herself” (یعنی ’’بچ‘‘ وہ عورت ہے جو خود پر قابو رکھنا جانتی ہے۔ )
’’شیری آرگو‘‘ آپ کو کتاب میں مردوں کے سامنے قالین بننے والی اچھی عورت سے ایک ’’بچ‘‘ بننے کا سفر طے کروائیں گی۔
شیری آرگو کی بیان کردہ ’’بچ‘‘ وہ ہوتی ہے جو اپنے اصولوں پر قائم رہتی ہے اور بچ کی سب سے اہم خصوصیت اس کی عزتِ نفس (Self-respect)ہے۔ شیری آرگو عزتِ نفس کو لے کر بہت سنجیدہ ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سب سے اہم خصوصیت ہے جو ان کی ’’بچ‘‘ کو بہت پُرکشش بناتی ہے۔
مَیں نے اس کتاب سے تین اہم باتیں اخذ کی ہیں جو میری پسندیدہ ہیں( ضروری نہیں کہ آپ کی بھی پسندیدہ ہوں):
٭ ایموشنل انٹیلی جنس (Emotional Intelligence):۔ شیری آرگو خواتین کو جذباتی طور پر مضبوط ہونے کی تلقین کرتی ہیں۔ عموماً بہت ضروری اور اہم بات بھی اگر رُو دھو کر یا طیش میں کہی جائے، تو ’’ایموشنل بلیک میلنگ‘‘ یا قابو میں کرنے والی لگتی ہے۔ فیصلہ کن لہجہ، صحیح الفاظ کا چناؤ، اپنے جذبات پر قابو، سامنے والی کی ’’باڈی لینگویج‘‘ پر توجہ وغیرہ آپ کی بات میں وزن ڈالتی ہیں۔ ہمارے یہاں شادی کو چلانے کے اُلٹے فارمولے موجود ہیں، لیکن دانش (Wisdom) کی کمی ہے۔ جذباتی طور پر شعور یافتہ عورت بہت پُرکشش اور پُراعتماد ہوتی ہے اور وہ نارساسسٹ (Narcissist) کے سہانے خوابوں (Abuse) کا شکار نہیں بنتی۔ کیوں کہ نارساسسٹ کی محبت کی غیر حقیقی برسات (Love Bombing) کو وہ بخوبی سمجھ لیتی ہے۔
٭ انفرادیت (Individuality):۔ اس والے پوائنٹ کی مَیں بھرپور حمایت کرتی ہوں۔ کیوں کہ شادی کے بعد عموماً ہم اپنی انفرادیت کھو دیتے ہیں۔ ہم وہی پسند کرنے لگتے ہیں جو ہمارے پارٹنر کو پسند ہو۔ کچھ معاملات پر تعاون کرنا یا تبدیل ہونا غلط نہیں، لیکن اپنی انفرادیت کو قائم رکھنا اور اپنے ساتھ وقت گزارنا، وہ کرنا جو آپ کو پسند ہے، اپنے لیے ایک چھوٹی سی علاحدہ جگہ (Space) بنانا آپ کے چارم کو کم نہیں ہونے دیتا۔ آپ کا پارٹنر سمجھ جاتا ہے کہ آپ اس کے بغیر بھی وقت گزار سکتے ہیں۔ بے شک آپ مالی طور پر منحصر ہیں، لیکن آپ اپنی تفریح، خیالات اور سوچ کے لیے مکمل طور پر اس پر منحصر نہیں۔
٭ عزتِ نفس (Self-Respect):۔ شیری آرگو اپنی اس کتاب میں عزتِ نفس کو لے کر بہت سنجیدہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں خوب صورت پُرکشش عورت وہ ہے، جو خود کو قبول کرتی ہے۔ اپنی حقیقت (Reality) کو قبول کرتی ہے، جس کی عزتِ نفس زندہ ہے۔ اعتماد (Confidence) ظاہری شخصیت سے بہت آگے کی چیز ہے۔ یہ صرف مہنگے کپڑے، خوب صورت میک اَپ سے نہیں آتا (یقینا اس کی بھی اپنی اہمیت ہوگی)، یہ وہ احساس ہے جو آپ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں، یہ بہت گہرا ہے اور اس کا تعلق آپ کی اندرونی شخصیت (Inner Self) سے ہے، جب اندر والا انسان خود سے خوش اور مطمئن نہ ہو، تب باہر کی دنیا بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتی۔ کیوں کہ اعتماد ایک پیچیدہ لیکن بہت وسیع احساس ہے، جو کئی احساسات کا ملاپ ہوتا ہے، جس میں کئی عوامل کے ساتھ اپنی حقیقت کو قبول کرنا اور عزتِ نفس کو قائم رکھنا بھی شامل ہیں۔
شادی یا کوئی بھی رشتہ دوسروں کا احساس، تعاون، خیال اور اپنی شخصیت، انفرادیت کو قائم رکھنا، وجدان، دانش کے درمیان توازن کو قائم رکھنے سے بنتا ہے (یقیناً اور بھی کئی عوامل شامل ہیں)، صرف دوسروں یا صرف اپنے متعلق سوچنا اکثر شدت والے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ ہم غلطیاں کرتے ہیں اور سیکھتے ہیں…… اور ایسے ہی ہم بگڑتے ہوئے توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ رشتے (Relationships) ہماری زندگی کا بہت اہم حصہ ہیں…… اور اس پر محنت کرنا ہمیں اطمینان (Fulfillment) کا احساس دیتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔